کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 450
{قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَo ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَo}(آل عمران: ۱۳۷۔۱۳۸)
’’بلاشبہ تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے، سو زمین میں چلوپھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ یہ لوگوں کے لیے ایک وضاحت ہے اور بچنے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت ہے۔‘‘
قرآن کریم نظر وفکر کی ساتھ سنن کی معرفت کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
{قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَo فَہَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَo} (یونس: ۱۰۱۔ ۱۰۲)
’’کہہ تم دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کچھ موجود ہے۔ اور نشانیاں اور ڈرانے والی چیزیں ان لوگوں کے کام نہیں آتیں جو ایمان نہیں لاتے۔تو یہ لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے ان لوگوں کے سے ایام کے جو ان سے پہلے گزر چکے ۔ کہہ دے پس انتظار کرو، یقینا میں (بھی) تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔‘‘
سنن الٰہیہ کی خصوصیات:
۱۔ یہ تقدیر سابق ہے، ارشاد ہے:
{مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہٗ سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًاo} (الاحزاب: ۳۸)
’’نبی پر اس کام میں کبھی کوئی تنگی نہیں جو اللہ نے اس کے لیے فرض کر دیا۔ یہی اللہ کا طریقہ ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزرے اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے اندازے کے مطابق ہے، جو طے کیا ہوا ہے۔ ‘‘
یعنی اللہ کا حکم اور وہ امر جو وہ مقدر کرے لامحالہ واقع ہو کر رہے گا، جس سے مفر کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا نہ ہوا۔
۲۔ سنن الٰہیہ میں تغیر و تبدیل نہیں ہوتا۔ ارشاد ہے:
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْہَآ اِلَّا قَلِیْلًاo مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا