کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 45
فما صفا لامریٔ عیش یسرٌّ بہ إلا سیتبع یومًا صفوہ کدر ’’اس ذات کے نام سے شروع جس کے پاس سے قرآن کریم کی سورتیں اتریں اورسب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں …امابعد! اے عمر! اگر تم جانتے ہوکہ تم کیا کرتے ہو اور کیا نہیں تو پھر تم احتیاط کرو اور بچو کہ بچنا نفع دیتا ہے۔ اور رب تعالیٰ کی حتمی لکھی تقدیر پر صبر کرو اور اس پر راضی رہو اگر چہ تمہیں تقدیر سے ناگوار باتوں کو ہی کیوں نہ دیکھنا پڑے۔ آدمی زندگی کا ایک دن بھی ایسا نہیں گزارتا جس میں وہ خوش ہو اور وہ دن خوش گوار ہو مگر اگلے ہی دن اسے مصائب آپڑتے ہیں جو اس دن کی خوشیوں کو مکدر کردیتے ہیں ۔‘‘[1] عبیداللہ ۹۸ھ یا ۹۹ھ میں دائمی اجل کو لبیک کہہ گئے۔[2] آپ کے دوسرے مایہ ناز شیخ سیدالتابعین جناب حضرت سعیدبن مسیب رحمہ اللہ تھے۔ آپ سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے کسی امیر یاخلیفہ کے دربار میں تشریف نہ لے جاتے تھے۔[3] سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رحمہ اللہ بھی آپ کے مشائخ میں سے تھے جن کے بارے میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تھے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ حضرت سالم تھے۔[4] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اس بیٹے سے بے حد محبت تھی جس کا لوگ انہیں طعنہ بھی دیا کرتے تھے مگر آپ ان کے جواب میں یہ شعر پڑھ دیتے تھے: ’’لوگ مجھے سالم کے بارے میں ملامت کرتے ہیں مگر میں انہیں ملامت کرتا ہوں ۔ سالم (میری) آنکھ اور ناک کی درمیان کی کھال ہے۔‘‘[5] حضرت سالم رضی اللہ عنہ ایک باندی کی اولاد تھے۔ ابن ابی زناد آپ کے بارے میں کہتے ہیں : اہل مدینہ ام ولد بنانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں ان عظیم شخصیات نے جنم لیا اور پرورش پائی علی بن حسین، قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ کہ یہ سب ام ولد کی اولاد تھے۔ یہ لوگ علم و تقوی اور عبادت و ورع میں سب اہل مدینہ پر سبقت لے گئے۔ تب لوگ باندیوں میں رغبت کرنے لگے۔[6]
[1] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۷۷ [2] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۷۸ [3] الجوانب التربویۃ فی حیاۃ الخلفیۃعمر،ص: ۲۵ [4] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۵۹ [5] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۶۰ [6] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۶۰۔