کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 448
مالی امور کو ایک جدول کی شکل میں پیش کرتے ہیں:
خراج پر عقبہ بن زرعہ طائی[1]
صدقات پر عبداللہ بن عبدالرحمن بن عقبہ قرشی[2]
نقدی کا ادارہ ابن ابی حملہ قرشی[3]
مرکزی خراج صالح بن جبیر غدانی[4]
تعلیمی صیغہ کا یہ حال تھا کہ آپ نے مساجد میں تعلیم و تربیت کے مستقل مکاتب کھول دئیے تھے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شعبہ بھی چند علماء کے ذمہ تھے۔ افتاء کا شعبہ فقہائے سبعہ کے ذمے تھا، جن کا تفصیلی ذکر ہو چکا۔ ان کے علاوہ ولایت صلوۃ، ولایتِ حج اور ڈاک وغیرہ کے شعبے بھی تھے۔ غرض آپ کی تجدیدی اور اصلاحی کوششوں کو تفصیل اس مختصر رسالہ میں نہیں بیان کی جا سکتی۔ بلا شبہ آپ تقسیم کار کے مبدا کی بابت اپنی طرز کے پہلے آدمی تھے۔[5]
بسا اوقات آپ اپنے والیوں کو وزراء کی تعیین اور شوریٰ کی تشکیل کا حق بھی دے دیتے تھے۔ اس طرح وہ فوجوں کی نگرانی بھی کر لیتے تھے اور انہیں داخلی امن کو برقرار رکھنے کا بھی اختیارملتا تھا۔ اس طرح ہر ولایت کے جملہ مصارف کی نگرانی بھی والیانِ اقالیم کرتے تھے۔ بہر حال یہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی حکومت و خلافت کی ادارت و انتظام کی چند جھلکیاں تھیں جن کو قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی کامیابیوں کے اسباب:
یہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ آپ کی شخصی صفات کا آپ کی کامیابیوں میں بے حد دخل تھا۔ چنانچہ آپ علم ورع، خوف و خشیت، حکم و تواضع وغیرہ کی صفات سے پوری طرح آراستہ تھے۔ گزشتہ سب صفحات اس امر کی تفصیل ہی تو ہیں۔
۲۔ آپ کے تجدیدی منصوبے واضح تھے اور وہ تھے خلافت کو دورِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے منہج پر واپس لے جانا۔
۳۔ جب امت نے آپ کی امانت و دیانت کو دیکھا تو انہوں نے بھی آپ کے اہداف کے حصول میں آپ کا بھر پور ساتھ دیا۔
۴۔ علمائے ربانی کی ایک جماعت کا وجود جو خلافت کے امور کو سنبھالنے کے اہل تھے۔ چنانچہ جب آپ
[1] النموذج الاداری: ص ۳۴۴۔
[2] امراء دمشق فی الاسلام: ص ۴۸۔
[3] عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ: ص ۲۹۵۔
[4] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۴۔
[5] النموذج الاداری: ص۳۴۵۔