کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 447
اور بتلایا کہ اطاعت صرف اللہ کی ہے ناکہ ظالم والیوں کی۔ یوں آپ نے انحراف کر کے چلنے والے ہر والی کی گوشمالی کی۔ اس خط میں آپ نے اصلاح کی نیت سے سفر کر کے آنے والے اور کسی خرابی کی خبر دینے والے کے لیے انعام دینے کا بھی وعدہ کیا۔ معلوم ہوا کہ آپ امت کی اصطلاح کے لیے کس تدبیر سے مال خرچ کرتے تھے۔ اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ توفیق اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رب پر اعتماد کی انتہا ہے کہ آپ اپنے آپ کو خود کچھ نہ سمجھتے تھے کہ جو کچھ ہوتا ہے رب کے لطف وکرم اور احسان ومعونت سے ہوتا ہے۔[1]یہ واقعات بتلاتے ہیں کہ آپ کو وقت کی قدر وقیمت اور اہمیت کا کس قدر احساس تھا، اور آپ اپنے حکومتی وخلافتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کس طرح مناسب وقت کے انتظار میں رہتے تھے۔[2]
۱۰… تقسیم عمل
آپ کو تقسیم کی اہمیت وافادیت کا بھی بھر پور ادراک تھا، آپ جانتے تھے کہ حکومت چلانے کے لیے تقسیم کار کے اصول کی کیا اہمیت ہے۔ چنانچہ آپ نے عقبہ بن زرعہ کو خراسان کا والی بنانے کے بعد اسے یہ خط لکھا:’’حکومت کے کچھ ارکان ہوتے ہیں جن کے بغیر حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا والی، قاضی، خزانچی اور میں یعنی خلیفہ یہ سب حکومت کے بنیادی ستون ہیں۔‘‘[3]یہ تھی رئیسی تقسیم کی صورت چنانچہ ولایت کو والی سنبھالتا تھا۔ قضا کو قاضی، خزانے کو ایک معتبر شخص اور سب سے بڑا حکومتی عہدہ خلافت خلیفہ کے سپرد ہوتی تھی۔ ‘‘
اب کچھ ذیلی اہم محکموں کا حال بھی سن لیجئے جن کو ہم حکومتی تقسیمات کہہ سکتے ہیں، چنانچہ ان میں سے ایک امارت جہاد ہے جو منصور بن غالب کے سپرد تھی۔[4]صائفہ (موسم گرما میں حملہ) کا صیغہ ولید بن ہشام اور عمرو بن قیس سکونی کے سپرد تھا۔[5]
جبکہ پولیس کے ذمہ داخلی امن قائم کرنا تھا، اور یہ صیغہ عمر بن یزید بن بشر کلبی کے ہاتھ میں تھا۔[6]حفاظتی اسکواڈ عمر بن مہاجر بن ابی مسلم انصاری کے پاس تھا، آپ کی دربانی حبیش کے ذمہ تھی جو آپ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اسی طرح کچھ رستوں پر چوکیاں قائم کیں۔ جیسے مصر کی چوکی اور اس پر عمر بن زریق ایلی کو مقرر کیا، ان کو آج کل کسٹم چوکیاں کہتے ہیں۔[7]مکاتبت پر لیث بن ابی رقیہ ام الحکم بنت ابی سفیان [8]اور مہروں پر نعیم بن سلامہ مقرر تھے۔[9]
[1] `التاریخ الاسلامی: ۱۶/ ۱۵۱۔
[2] النموذج الاداری: ص ۳۴۰۔
[3] النموذج الاداری: ص ۳۴۲۔
[4] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۷۱۔
[5] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۴۔
[6] ایضًا
[7] عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی رد المظالم: ص ۳۴۴۔
[8] تاریخ خلیفۃ: ۳۲۴۔
[9] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۵۔