کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 446
محاسبہ کی بات ہے کہ آپ نے اس میں تاخیر کی گنجائش نہ پا کر وہیں پر یہ تین پروانے لکھ ڈالے۔ اب پہلا فرمان قسطنطنیہ کے محاذ پر لڑنے والے مجاہدوں کے بارے میں تھا کہ ان کی دقت کے پیش نظر آپ نے انہیں واپس آجانے کو کہا۔ آپ نے اللہ کے لیے اس حکم کو جاری کرنے میں تاخیر کی گنجائش نہ دیکھی کہ مسلمان دشمنوں کے سامنے مشکل میں تھے۔ اسی بات نے آپ کو یہ حکم لکھنے میں جلدی کرنے پر ابھارا۔[1]اور واقعی ان لوگوں کا جو حال تھا انہیں واپس بلا لینا ہی مناسب تھا۔[2] دوسرا پروانہ مصر کے خراج پر مامور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا تھا جس نے وہاں بے تحاشا اودھم مچا رکھا اور ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا، جبکہ آپ نے افریقہ پر سے یزید بن ابی مسلم کو اس کی ستم کیشی کی وجہ سے معزول کر دیا۔[3]آپ نے لوگوں کو جو بات بھی کہنی ہوتی اس کے لیے مناسب وقت کو ملحوظ رکھتے۔ جن میں کبھی تو لوگوں کی کثرت کا لحاظ ہوتا تو کبھی جگہ کا تقدس پیش نظر ہوتا۔ پھر سب سے زیادہ آپ حج کے موسم سے فائدہ اٹھاتے کہ یہ وقت تمام بلاد وامصار سے مسلمانوں کے اکٹھے ہونے کا ہوتا تھا۔ لہٰذا آپ عرفہ کے دن کے لیے اہم امور پر مشتمل خط لکھ بھیجتے تھے۔ اور اس وقت کے اختیار کرنے میں دوامر ملحوظ ہوتے تھے۔ (۱) زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے سامنے اعلان کیا جا سکے اور قرار دیں اور فرامین انہیں سنائی جا سکیں۔ (۲) دوسرے اس مجمع میں کیا گیا اعلان اور سنایا گیا حکم سرعت کے ساتھ سارے علاقے میں پھیل جاتا تھا۔[4]چنانچہ ایک موقعہ پر موسم حج میں یہ اہم خط پڑھ کر سنایا گیا: ’’امابعد! میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور اس عزت والے مہینے، عزت والے شہر اور حج اکبر کے دن تمہارے کیے گئے مظالم اور زیادتیوں سے بری ہوتا ہے کہ نہ تو میں نے ان کا حکم دیا اور نہ ان پر راضی ہوں اور نہ میں نے ان کا قصد کیا۔ البتہ اگر میرے کسی غیرارادی اشارے سے کسی نے یہ سمجھ لیا ہو اور اس کو میری طرف منسوب کر دیا گیا تو میں اس کی اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور امید ہے کہ یہ بات بخش دی جائے گی۔ کہ یہ مخاطب کا وہم ہے ناکہ میرا قصد وارادہ۔‘‘[5]اس کے بعد آپ نے طویل نصیحتیں فرمائیں جن میں سے اکثر کا ذکر گزشتہ اوراق میں ہو چکا ہے۔ بے شک یہ خط ظلم کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ آپ نے مظالم ختم کرنے میں بے پناہ اور بے مثال کوششیں کیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کسی ظلم کی آپ کو خبر نہ پہنچی ہو تو اس عظیم اجتماع میں آپ نے یہ اعلان کر کے اس سے بھی براء ت کا اعلان کر دیا۔ اس خط میں آپ نے والیوں کی بے اعتدالیوں سے بھی براء ت ظاہر کی۔
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۲۔ [2] النموذج الاداری: ص ۳۳۷۔ [3] النموذج الاداری: ص ۳۳۷۔ ۳۳۸۔ [4] النموذج الاداری: ص ۳۳۹۔ [5] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۲۹۲۔ ۲۹۳۔