کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 445
۵۔ فکری نرمی اور لچک:…آپ فکری نرمی اور لچک کے زیور سے بھی آراستہ تھے جمود اور تشدد کے پاس بھی نہ پھٹکتے تھے۔ گزشتہ واقعہ گزر چکا ہے کہ آپ نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن محمد کو لوگوں کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ یزید نے تو اس پر معاوضہ وصول کر لیا جبکہ حارث نے نہ کیا، تو آپ نے یہ کہہ کر اپنی فکری نرمی اور لچک دکھائی کہ ’’یزید نے جو کیا وہ برا نہیں اور اللہ ہمیں حارث جیسے اور بھی دے۔‘‘[1]
آپ نے دونوں علماء کا موقف مختلف ہونے کے باوجود دونوں کے بارے میں ایک موقف نہیں رکھا۔ جنہوں نے تعلیم کا معاوضہ قبول کیا ان پر رد نہ کیا۔ اور جنہوں نے قبول نہ کیا ان کے اس فعل کو سراہا۔ آپ نے ایک ہی وقت میں دو مختلف موقف اپنا کر اپنی فکری لچک کا ثبوت دیا۔ یہ آپ کی حد درجہ کی قناعت تھی۔ اور فکری لچک ہونا ضروری بھی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی پسند نہیں۔‘‘[2]کیونکہ اگر ان حضرات میں اختلاف نہ ہوتا تو امت کو رخصت نہ ملتی۔‘‘[3]
یہ دلائل وشواہد بتلاتے ہیں کہ آپ نے مملکت چلانے کے لیے مروت اور لچک کو ایک اساس کے طور پر اختیار کیا ہوا تھا، ہاں آپ کی یہ مروت آپ کی تنفیذات کی راہ میں، اہداف کے حصول میں اور بلند مقاصد تک پہنچنے کی راہ میں ہرگز بھی رکاوٹ نہ تھی۔[4]
۹… وقت کی اہمیت
آپ اپنا زیادہ وقت امور خلافت میں صرف کرتے ہر وقت مسلمانوں کی حاجت روائی اور حقوق اللہ کی ادائیگی پر کمر بستہ رہتے اور رات کو وتروں کے بعد کسی سے بات نہ کرتے اور دعا ومناجات میں مشغول ہو جاتے۔[5]وقت کو قیمتی جاننے کی بابت آپ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ: ’’اے انسان! دن اور رات تم میں عمل کر رہے ہیں تو ان میں عمل کر۔‘‘[6]
آپ نیکیوں کی طرف لپکتے اور امور خلافت کو سرانجام دینے میں بے پناہ سرعت سے کام لیتے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل ابن عبدالحکم کی یہ روایت ہے کہ ’’سلیمان کو جب نماز مغرب کے بعد دفن کر دیا گیا تو آپ نے سلیمان کی تدفین کے فوراً بعد کاغذ قلم منگوا کر تین فرمان جاری کیے کہ ان میں تاخیر کی گنجائش نہ تھی۔ لوگ یہ دیکھ کر آپس میں کہنے لگے: ’’اس جلدی کی کیا ضرورت تھی؟ کیا گھر جانے تک صبر نہ کر سکتے تھے؟ ارے یہ تو حکومت کی محبت ہے‘‘، لیکن بات یہ ہے کہ یہ جلدی حکومت کی محبت کا نتیجہ نہ تھی بلکہ یہ نفس کے
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۳۷۔
[2] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ۲۷۵۔
[3] الطبقات: ۵/ ۳۸۱۔
[4] النموذج الاداری: ص ۳۳۲۔
[5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۲۱۰۔ ۲۱۱۔
[6] الادارۃ فی التراث الاسلامی: ۱/ ۲۷۹۔ از البرعی و عابدین۔