کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 444
فرمایا: ’’گھبراؤ نہیں! آج جمعہ کا دن ہے، نماز پڑھ کر جانا، ہم نے تمہیں مسلمانوں کے امر کی طرف جلد جانے کو کہا تھا، لیکن ہمارا جلدی کا مطالبہ تمہیں نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے سے پیچھے نہ کر دے۔‘‘[1] یہ تھی آپ کی نرمی اور لچک، باوجودیکہ آپ نے ان صاحب کو مسلمانوں کے امر کا مندوب بنا کر جلد پہنچنے کو کہا تھا۔ لیکن تاخیر ہو جانے پر ان کے ساتھ مروت ونرمی کا رویہ اپنایا۔[2] ۲۔ آپ نے ایک موقعہ پر والی خراسان کو طلب فرمایا، وہ خلیفہ کا امر پاتے ہی جلدی سے دارالخلافہ دمشق پہنچے۔ جب آپ نے ان کے چہرے پر سفر کی تکان کے آثار دیکھے تو فرمایا: ’’کب روانہ ہوئے تھے۔‘‘ بولے رمضان میں، تو آپ نے فرمایا: ’’تم نے جفاء کا جو وصف بیان کیا تھا اس میں سچے نکلے۔ ارے رمضان کے بعد کیوں نہ روانہ ہوئے؟‘‘[3] ۳۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ میمون بن مہران دمشق کے دیوان پر مامور تھا، وہ کہتے ہیں کہ جب دمشق کے والیان امور نے اپاہج کا وظیفہ مقرر کیا تو میں نے کہا: ’’اس پر احسان کرنا تو ٹھیک ہے لیکن تندرست آدمی جتنا وظیفہ مقرر کرنا ٹھیک نہیں۔‘‘ لوگوں نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو میمون کی یہ شکایت لکھ بھیجی کہ یہ صاحب ہم پر سختی کرتے ہیں، اور ہمیں مشقت میں ڈالتے ہیں اس پر آپ نے مجھے یہ خط لکھا کہ: ’’جب میرا یہ خط تمہیں ملے تو اس کے بعد لوگوں پر سختی نہ کرنا اور نہ انہیں مشقت میں ڈالنا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں۔‘‘[4] آپ نے میمون کو نرمی اور عدم مشقت کا بنیادی اصول لکھ بھیجا تھا۔ ۴۔ مذاکرات اور افہام وتفیہم میں نرمی:……خوارج کے ساتھ آپ کی گفتگو بتلاتی ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ نرم گفتگو اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ مذاکرہ اور مناظرہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ خوارج کے ایک وفد نے آکر آپ کے ساتھ گفتگو شروع کی، ایک صاحب نے اشارہ کیا کہ ان سے ذرا رعب کے ساتھ بات کیجئے۔ مگر آپ نے اخیر تک لہجے کی نرمی کو نہ جانے دیا۔ یہاں تک کہ انہیں قائل کر لیا اور انہیں خلعت اور انعام سے نواز کر رخصت کر دیا، ان کے جانے کے بعد آپ نے اشارہ کرنے والے صاحب کی ران پر ہاتھ مار کر کہا: ’’اگر دوا سے شفا ملتی ہو اور داغنے کی ضرورت نہ ہو تو کیا داغنا ضرور ہے، ایسا کبھی نہ کرو۔‘‘ [5]آپ نے خوارج کے ساتھ ہر قسم کی نرمی کی۔[6]
[1] سیرۃ عمر، لابن الجوزی: ص۱۰۶۔ [2] النموذج الاداری: ص ۳۳۰۔ [3] تاریخ الطبری نقلاً عن النموذج الاداری: ص ۳۳۰۔ [4] الطبقات: ۵/ ۳۸۰۔ [5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۷۶۔۷۷۔ [6] النموذج الاداری: ص ۳۳۱۔