کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 443
نتائج کی ہے۔ لوگ باتیں تو بہت کرتے ہیں کہ ہم حقیقی انقلاب لائیں گے۔ جڑ سے تبدیلی لائیں گے۔ پرانی بوسیدہ جڑوں کو اکھاڑ کر نیا بیج بوئیں گے۔ لیکن تھوڑا وقت ہی گزرتا ہے کہ یہ لوگ رہ جاتے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے صرف باتیں کی تھیں… جبکہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مصلح کبیر اور حاذق فقیہ تھے۔ آپ باتوں کی بجائے عمل کرتے تھے۔ اور اس میں بھی سختی سے کام نہ لیتے اور نہ اٹکل سے۔آپ فرد فرد کی اصلاح سے معاشرے تک پہنچے اور چراغ سے چراغ جلا کر اندھیرا دور کیا۔ پھر آپ نے دل سے برائی کی جڑ کو اکھاڑا بھی تو نرمی کے ساتھ، دلجوئی کے ساتھ، لچک کے ساتھ دنیا دے کر اور دلوں کو نرمانے کے ساتھ۔ یاد رہے !کوئی اس کو آپ کا دست بردارا نہ رویہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ مجموعی اصلاح سے جزوی اصلاح پر اتر آئے کہ آپ کی پوری زندگی میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کبھی آپ نے بالشت بھر بھی ان اہداف سے جو قرآن کریم اور سنت نبویہ میں مذکور ہیں، پیچھے ہٹنے کی روش اپنائی ہو۔ بلکہ آپ نے کامل ہدف کے حصول کے لیے زندگی سے بھر پور اسلوب کی فقہ کو اختیار کیا۔ وہ یہ کہ… ’’مسلسل سختی لاوا بن کر پھٹ پڑتی ہے جو تباہی و بربادی لاتی ہے، صاحب امر اس انتشار کو نرم رویوں سے قابو کر سکتے ہیں۔‘‘[1] اور جب آپ کے بیٹے نے یہ کہا: اے امیرالمومنین! آپ اللہ کے امر کو نافذ کیجئے چاہے ہمیں ہانڈیوں میں ابال دیا جائے، تو فرمایا: ’’اے بیٹے! اگر میں ایسا کروں گا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو یہ لوگ مجھے تلوار اٹھانے پر مجبور کریں گے، اس خیر میں کیسی خیر جو تلوار کے بل پر حاصل ہو۔‘‘[2] بھلا ایسا ذکی اور حساس خلیفہ ایک دن بھی اپنے ہدف سے غافل ہو سکتا ہے یا اس میں لچک رکھ سکتا ہے؟[3]گزشتہ مذکورہ آپ کے نرم رویوں کا تعلق سیاست عامہ کی تنفیذ سے ہے اور وہ سیاست تھی اقامت عدل اور نشر اسلام اور ایک عقیدہ پر مبنی خلافت کا قیام۔‘‘[4] اس کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ ایک دن آپ اپنے پہرے داروں کے پاس آئے اور پوچھا: ’’تم میں سے کون اس شخص کو جانتا ہے جسے ہم نے مصر روانہ کیا تھا۔‘‘ وہ بولے ہم سب جانتے ہیں کیونکہ آپ نے انہیں تھوڑی دیر پہلے ہی مندوب بنا کر مصر بھیجا تھا، فرمایا: ’’تم میں سے سب سے نو عمر جائے اور اس کو بلا لائے۔‘‘ وہ جمعہ کا دن تھا۔ ان صاحب نے سمجھا کہ شاید مجھے مصر جانے میں تاخیر ہوگئی ہے اس لیے بلوا بھیجا ہے تو بولا: ’’جلدی نہ کرنا میں ذرا کپڑے درست کر لوں، غرض وہ صاحب کپڑے درست کر کے پہنچے، آپ نے
[1] ملامح الانقلاب: ص ۱۷۴۔ [2] ملامح الانقلاب: ص ۱۷۵۔ [3] ملامح الانقلاب: ص ۱۷۵۔ [4] النموذج الاداری: ص ۳۲۹۔