کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 442
آپ کے بیٹے نے سمجھی تھی کہ شاید آپ اقامت حق وعدل میں کسی آزمائش سے ڈرتے ہیں، اقامت حق کی خاطر تو آپ زندہ ابال دیئے جانے اور تل دیئے جانے تک کے لیے آمادہ رہتے تھے۔[1]
باپ بیٹے میں ہونے والی ایک اور گفتگو سے بھی آپ کے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے، لیجئے سنیے!
بیٹا: ابا جان! آپ سونے اور آرام کرنے آجاتے ہیں کیا معلوم اس دوران کوئی اپنی فریاد لے کر پہنچ جائے اور آپ اس میں اللہ کے حق کا فیصلہ نہ کریں؟
باپ: بیٹا میرا یہ بدن میری سواری ہے اگر میں اس کے ساتھ نرمی نہیں کروں گا تو منزل تک کیسے پہنچوں گا کہ یہ تو تھک کر رستے میں بیٹھ جائے گی۔ اگر میں اس کو آرام نہ دوں گا چند دن بعد ہی یہ سواری ہلاک ہو جائے گی۔ اور میں اپنی نیند میں بھی اسی اجر کی امید رکھتا ہوں جس کی اپنی بیداری میں رکھتا ہوں۔ اللہ اگر قرآن کو یک مشت اتارنا چاہتے تو اتار سکتے تھے لیکن آپ نے تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن اتارا یہاں تک کہ دلوں میں ایمان کو جاگزیں کر دیا۔
اے میرے بیٹے! میرا یہ امر امویوں سے زیادہ اہم ہے، یہ لوگ پہلے بڑی شان کے رہے ہیں، اگر میں انہیں ایک دن میں اکٹھا کروں تو ڈر ہے کہ میرے خلاف انتشار کریں گے لیکن میں ایک دو کے ساتھ انصاف کروں گا تو اس کی خبر پیچھے دوسروں کو بھی ہو جائے گی۔ اور یہ بات زیادہ نتیجہ خیز ہے۔[2]
یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ اداروں کے چلانے میں آپ کس قدر تدبر اور فقاہت سے کام لیتے تھے اور اپنے اہداف جیسے اقامت حق وعدل، ازالہ ظلم وغیرہ کے حصول کے لیے نرم روی سے اپنے پروگراموں پر عمل کرتے تھے۔[3]
آپ نے یہ فرما کر کہ ’’یہ میرا بدن میری سواری ہے کہ اگر اس کو تھکا دوں گا تو بیٹھ جاؤں گا۔‘‘ واضح کیا کہ انسان کی طاقت محدود ہے اور مشقتیں برداشت کرنے کی ایک حد ہے۔ انسان اتنی ہی ذمہ داریوں کو قبول کرے جن کے تحمل کی انسان کے رگ و ریشے میں ہمت ہو۔ اور اس کے اعصاب میں اس کی طاقت ہو، اگر اس کی رعایت نہ رکھی جائے تو بہت جلد انسان کے باطنی قوی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جس کا لازمی اثر خارجی امور پر بھی پڑتا ہے۔ اور جتنا ہم اپنا کام بڑھاتے جائیں گے اندرونی اعصاب پر بوجھ دن بدن بڑھتا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ کبھی انسان اس زیادہ بوجھ کی تاب نہ لا سکے۔[4]
اور آپ کا یہ قول کہ ’’میں ان میں سے ایک دو کے ساتھ انصاف کروں گا کہ یہ بات زیادہ نتیجہ خیز ہے۔‘‘ بتلاتا ہے کہ آپ کے نزدیک اصلاحی اور تجدیدی منصوبوں اور اقدامات میں سب سے زیادہ اہمیت
[1] النموذج الاداری: ص ۳۲۸۔
[2] سیرۃ عمر، لابن الجوزی: ص۱۰۶۔
[3] ملامح الانقلاب: ص۱۷۳۔
[4] ایضًا