کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 441
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک مرکزیت اور لا مرکزیت کا معیار اور پیمانہ کیا تھا اس کا خلاصہ ذیل کی سطور میں درج کیا جاتا ہے:
۱۔ دیکھا جائے گا کہ پیش آمدہ مسئلہ کی مصلحت عام ہے یا خاص۔
۲۔ مسئلہ کی اہمیت مرکزیت یا لا مرکزیت کے اختیار کی تحدید وتعیین کرے گی لہٰذا قصاص، قتل اور سولی دینے وغیرہ جیسے مسائل میں زیادہ مناسب یہی ہے کہ مرکزیت کو اختیار کیا جائے۔
۳۔ پیش آمدہ نئے مسائل اپنی اہمیت کے حامل ہیں جن کی بابت قرآن وحدیث میں کچھ وارد نہیں۔
۴۔ خلیفہ اور والیوں کے درمیان جغرافیائی بعید مسافتیں بھی اس کی تعیین کریں گی کہ مرکزیت اختیار کی جائے یا لا مرکزیت۔
۵۔ وقت کی رعایت بھی ملحوظ رہے کہ تاخیر بسا اوقات ضرر یا موت کا سبب بن جاتی ہے۔
۶۔ معتمد وثقہ کی موجودگی بھی مرکزیت یا لا مرکزیت کی تعیین میں معین ہے۔
۷۔ جلدی عمل درآمدگی بھی موثر ہے۔
۸۔ ثقہ لوگوں کو قاضی، عامل اور والی بنانا بھی اس امر کی تعیین میں معاون ہے۔[1]
یہ تھے وہ معیار اور پیمانے جن کو سامنے رکھ کر آپ مرکزیت اور لا مرکزیت میں موازنہ اور ترجیح کو قائم کیا اور اس باب میں آپ علما کے کردار کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔[2]
۸… نرمی اور لچک
آپ نے افہام وتفہیم، مذاکرات، گفت وشنید، فکر و تدبر تنفیذ اوامر اور ان کی تقیید میں مروت اور لچک کے رویہ کو اپنایا۔ گزشتہ میں گزر چکا ہے کہ جب آپ کے بیٹے عبدالملک نے یہ کہا :’’ابا جان! آپ کو عدل اپنانے سے کون سی چیز مانع ہے؟ تو فرمایا: ’’بیٹا مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ راہ حق میں مجھے اور تجھے ہانڈی میں ابال دیا جائے مگر بات یہ ہے کہ میں لوگوں کو ایک سخت بات کا عادی بنا رہا ہوں۔ میں عدل کو ایسے طریق سے زندہ نہیں کرنا چاہتا کہ پھر خود بھی اس سے پیچھے ہٹ جاؤں۔ پھر دنیا کی طمع لے کر نکلوں کہ لوگ پھر عدل سے بھاگیں اور دنیا سے مطمئن ہوں۔‘‘[3]
آپ فرماتے ہیں: ’’جب تک میں نے لوگوں پر دنیا نہ لٹائی انہوں نے حق میں میری اطاعت نہیں کی۔‘‘[4]آپ نے دیکھ لیا کہ مقصد کے حصول کے لیے ذرا لچک اور چشم پوشی کرنا پڑتی ہے ناکہ بات وہ تھی جو
[1] النموذج الاداری: ۳۲۶۔
[2] النموذج الاداری: ۳۲۶۔
[3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۸۸۔
[4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۸۸۔