کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 44
میں توتخفیف کرتے البتہ رکوع سجدہ خوب مکمل اور طویل ادا کرتے تھے۔ اور ایک صحیح روایت میں واردہے کہ آپ رکوع اور سجود میں دس دس مرتبہ تسبیح کرتے تھے۔[1] آپ کے والد ماجد جب سفر حج کے دوران مدینہ سے گزرے تو صالح سے اپنے بیٹے کی صالحیت کے بارے میں دریافت کیا۔ تو صالح نے یہ ایمان افروز جواب دیا کہ ’’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس کے سینے میں رب کی عظمت اس نوجوان سے زیادہ ہو۔[2] آپ کے وہ مشائخ جن سے آپ بے حد متاثر ہوئے ان میں ایک ممتاز نام : عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کا بھی ہے، آپ ان کا بے حد احترام فرماتے، ان کے علوم سے خوب سیراب ہوتے، ان کے اخلاق وآداب اپناتے، امیر مدینہ بن جانے کے بعد بھی کثرت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ موصوف سے اپنے بے حد متاثر ہونے اور بار بار خدمت میں حاضر کی وجہ خود بیان کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ’’حضرت عبیداللہ کی مجلس میں بیٹھنا مجھے ایک ہزار دینار سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ [3] آپ اپنے ایام خلافت میں اپنے شیخ کی غزارت علمی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کرتے تھے’’آج اگر عبیداللہ زندہ ہوتے تو میں انہی کی رائے تسلیم کیا کرتا اور میں اتنے اتنے مال کے بدلے بھی عبیداللہ کے ساتھ گزارے ایک دن کو زیادہ محبوب رکھوں ۔ ‘‘[4] عبیداللہ اپنے زمانہ کے مفتی مدینہ تھے، ان کا شمار مدینہ کے فقہائے سبعہ میں ہوتا تھا۔[5] زہری عبیداللہ کے بارے میں کہتے ہیں : ’’ عبیداللہ علم کا ایک سمندر تھے۔ ‘‘[6] عبیداللہ شعرگوئی پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو یہ اشعار لکھ بھیجے: بسم الذي أنزلت من عندہ السور والحمد للّٰہ أمّا بعد یا عمر إن کنت تعلم ما تأتي وما تذر فکن علی حذر قد ینفع الحذر واصبر علی القدر المحتوم وارض بہ وإن أتاک بما لا تشتہي القدر
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۷۸ [2] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۸۲ [3] عمربن عبدالعزیز، ص: ۵۹ از عبدالستار شیخ [4] عمر بن عبدالعزیز، ص: ۵۹ از عبدالستار شیخ [5] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۷۵ [6] سیر اعلام النبلاء : ۴/۴۷۷