کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 439
سلیمان کو وہ خط لوگوں کو سنانے کو لکھا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سلیمان ان چیزوں میں سے کچھ نہ لیتے تھے جو آپ نے سنی ہیں۔ اور نہ وہ میری طبیعت کے خلاف کوئی حکم دیتے تھے۔‘‘ آپ نے فرمایا: میں تمہیں قید میں ڈالوں گا۔ اللہ سے ڈر۔ پچھلا مال ادا کر یہ مسلمانوں کا حق ہے، میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ نے اسے قید میں ڈال دیا یہاں تک کہ اسے آپ کے بیمار ہو جانے کی خبر ملی۔‘‘[1]
آپ اپنے والیوں کی پوری خبر گیری فرماتے، ان کی کوتاہیوں پر سرزنش کرتے۔ چنانچہ آپ نے ایک والی کو یہ خط لکھا: ’’تیری شکایتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور تیرا شکر ادا کرنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں، اب یا تو سیدھے ہو جاؤ یا پھر یہ عہدہ چھوڑ دو… والسلام‘‘[2]
۷… مرکزیت اور لا مرکزیت
آپ نے حکومت چلانے کے لیے مرکزیت اور لا مرکزیت کے درمیان تقابل کیا اور دونوں اساسوں کو جمع کیا، وہ یوں کہ محدود معیاروں کی اتباع میں موقع کی مناسبت سے ایک کو دوسرے پر منطبق کیا۔ ذیل کی تفصیل سے یہ امر واضح ہو جائے گا۔
آپ نے کوفہ کے عامل کو خط لکھا جو بتلاتا ہے کہ آپ نے مرکزیت کی تطبیق کیسے کی؟ آپ لکھتے ہیں: ’’میں نے تمہیں اس امر میں سے والی بنایا ہے جو اللہ نے میرے سپرد کیا ہے اس لیے میری طرف مراجعت کیے بغیر نہ تو کسی کا ہاتھ کاٹنا اور نہ کسی کو سولی دینا۔‘‘[3]
یہاں آپ نے دیکھا کہ اس زبردست اہمیت کے حامل مسئلہ میں امت کی مصلحت ’’مرکزیت‘‘ کی تطبیق میں ہے کبھی برطرفی تلوار پر سبقت لے جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ قتل اور سولی کی سزا میں عجلت سے کام لینا امت کے حق میں مصلحت نہیں۔ ہر شخص کو جلد یا بدیر اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ آپ تو عام معاملات میں عادلانہ تحقیق کو ترجیح دیتے تھے جیسا کہ گزشتہ میں بیان ہوا تو بھلا کسی کا خون کرنے میں اور اس کی روح نکالنے میں آپ کیونکر عجلت کر سکتے تھے۔[4]آپ نے اپنے والیوں اور امراء کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اور بھی متعدد امور ہیں جن کی طرف رجوع کرنا از حد ضروری ہے۔ اور اس غرض کے لیے آپ نے مرکزیت کے اسلوب کو اختیار کیا۔ چنانچہ اگر کوئی ایسا امر پیش آجائے جس میں قرآن وسنت سے کوئی ہدایت نہ ملے اس بارے میں آپ لکھتے ہیں: ’’ایسے امور کو والی اور امام کے پاس پیش کیا جائے اور اس کے بغیر اس میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ اور جو فیصلہ وہ کر دے اس کو تسلیم کیا جائے۔‘‘[5]
[1] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۶۰، ۴۶۱، ۴۶۲۔
[2] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۲۷۵۔
[3] النموذج الاداری: ص ۳۲۲۔
[4] النموذج الاداری: ص ۳۲۳۔
[5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۶۳۔