کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 438
آپ کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ جب بھی امراء اور والی تجارت کریں گے تو دو میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہے گی، یا تو وہ تجارت میں لگ کر حکومتی ذمہ داریوں اور عوامی مسائل سے غافل ہو جائے گا۔ یا پھر تجارت میں ناحق رویے اختیار کر بیٹھے گا۔ یہ حکم صادر فرما کر آپ نے ان دونوں خرابیوں کا دروازہ بند کر دیا۔ جو بسا اوقات ادارتی بگاڑ کو جنم دیتی ہیں اور ان کے بد نتائج کسی سے مخفی نہیں۔[1] ابن خلدون اپنے وسیع تجربات، گہرے مطالعہ اور غضب کی دور اندیشی کی روشنی میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے آٹھ صدیوں بعد اپنے مشہور زمانہ مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’سلطان کا تجارت کرنا رعایا کے لیے نقصان دہ اور ٹیکس کو سخت بنانے والا ہے۔‘‘[2] ۶۔ والی اور رعیت کے درمیان رابطوں کی بحالی گزشتہ خلفاء ہر وقت حاشیہ نشینوں کے جھرمٹ میں رہتے تھے جس کی بنا پر عوام کا ان سے ملنا دشوار بلکہ ناممکن سا ہوگیا تھا۔ ان لوگوں نے خلفاء و امراء کے گرد لوہے کا ایک ایسا حصار کھینچ رکھا تھا جس میں سے صرف وہ چیز گزر سکتی تھی جس میں ان کا مفاد یا مصلحت ہوتی تھی۔ جبکہ آپ نے اس کے بالکل برعکس یہ اعلان کیا کہ ’’جو بھی ہمارے پاس عوام کی مصلحت کی کوئی بات لائے گا۔ یا حقیقت حال سے خبر دے گا اس کو انعام سے نوازا جائے گا۔‘‘ چنانچہ آپ نے حج کے موقعہ پر یہ اعلان لکھ بھیجا کہ ’’کسی کے ظلم کی دادرسی ہے یا کسی کے پاس عوام کی مصلحت کی کوئی بات ہے وہ ہم تک لے آئے اسے آنے جانے کے خرچ کے علاوہ ایک سے تین سو دینار تک انعام ملے گا۔ شاید اللہ اس سے کسی حق کو زندہ کر دے یا کسی باطل کو مٹا دے یا خیر کا کوئی دروازہ کھول دے۔‘‘[3] آپ نے اپنے عاملوں کو لکھا : ’’وہ عوام کے ساتھ رابطے بحال کریں، ان کی سنیں، ان کے احوال معلوم کریں، اس سے ظلم وتعدی کا دروازہ بند ہوگا۔ دوسروں کے حقوق کی پامالی کا چلن ختم ہوگا۔ اور کسی کو اپنا حق وصول کرنے کے لیے غیر اسلامی طریقے اختیار نہ کرنے پڑیں گے۔‘‘[4] ۷۔ بیت المال کی بابت گزشتہ والیوں کا محاسبہ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے والی خراسان یزید بن مہلب کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، جب وہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے ابن مہلب سے ان اموال کے بارے میں پوچھا جو اس نے سلیمان کو بتلائے تھے۔ اس پر یزید بولا: ’’آپ جانتے ہیں کہ سلیمان بن عبدالملک کی نظروں میں میرا کیا مقام تھا، میں نے
[1] النموذج الاداری: ص ۳۲۰۔ [2] مقدمۃ ابن خلدون نقلا عن رجال الفکر والدعوۃ للندوی: ۱/ ۴۶۔ [3] رجال الفکر والدعوۃ: ص ۱/ ۴۷۔ [4] النموذج الاداری: ص ۳۲۰۔