کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 437
گزشتہ خلفاء اور ان کے والیان نیروز، مہرجان اور نہ جانے کس کس نام سے ہدیے، تحفے، ٹیکس اور قیمتیں لینے کے عادی تھے۔ آپ نے خطوط لکھ کر ان سب سے منع فرمایا جس کی تفصیل گزشتہ میں بیان ہو چکی ہے۔
چنانچہ جب آپ کی اہلیہ نے ابن معدی کرب کو خط لکھا کہ سینین یا لبنان کا شہد بھیجو تو اس شہد کے آنے پر آپ نے اسے یہ خط لکھا: ’’اللہ کی قسم! اگر تم نے دوبارہ ایسا کیا تو میرے لیے کبھی کام نہ کرنا اور میں تمہاری کبھی شکل بھی نہ دیکھوں گا۔‘‘[1]
۴۔ فضول خرچی کی ممانعت
آپ نے مسلمانوں کے اموال کی حفاظت کا زبردست اہتمام کیا۔ چنانچہ خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے آپ نے شاہی اللوں تللوں کو ختم کیا اور جب آپ کے سامنے شاہی سواریاں پیش کی گئیں تو ان کو اور ان کے قیمتی ساز وسامان کو بیت المال میں جمع کرا کے اپنے لیے ایک خچر رکھ لیا۔ پھر دوسرے شاہی فرش فروش ہٹا کر بیٹھنے کو ایک چٹائی منتخب کی۔ اور ان کو بھی بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔[2]
جب میمون بن مہران اور آپ مل کر امور مملکت میں غور کر رہے تھے تو میمون نے پاس رکھے کاغذوں کے بارے میں دریافت کیا کہ اس میں آپ نے اتنا کھلا کھلا کیوں لکھا ہے کہ یہ تو بیت المال کا کاغذ ہے تو آپ نے سب عاملوں کو حکم جاری کر دیا کہ ’’آئندہ سب باریک اور لفظ ملا ملا کر لکھا کریں گے تاکہ سرکاری کاغذ کم خرچ ہو۔‘‘ میمون کہتے ہیں کہ آپ کا کاغذ ایک بالشت جتنا ہوتا تھا۔[3]
والی مدینہ کا چراغ طلب کرنے کا واقعہ بیان ہوچکا کہ آپ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔ غرض سرکاری مال کے بارے میں یہ آپ کی اصلاحی اقدامات تھے۔ آپ نے خود بھی احتیاط کی اور سرکاری عاملوں کو بھی فضول خرچی سے بچنے کا حکم دیا۔ آپ بیت المال کو بڑھانا چاہتے تھے اس لیے اس سے خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرتے۔[4]
۵۔ والیوں اور عاملوں پر تجارت میں لگنے کی پابندی
آپ نے اپنے عاملوں کو یہ لکھ بھیجا کہ ’’میرے نزدیک امام تجارت نہ کرے اور کوئی والی اپنے زیر فرمان علاقہ میں تجارت نہ کرے۔ کیونکہ امیر جب تجارت کرتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے کام کر بیٹھتا ہے جن میں عوام کے حق میں سختی ہوتی ہے۔‘‘[5]
[1] المعرفۃ والتاریخ للبسوی: ص ۱/ ۵۸۰۔
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۳۔
[3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۸۸۔
[4] النموذج الاداری: ص ۳۱۹۔
[5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۸۳۔