کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 436
۱۔ عمال کی تنخواہوں میں اضافہ
آپ نے خیانت کا رستہ بند کرنے کے لیے عاملوں کی تنخواہیں بڑھا دیں تاکہ انہیں اپنے اہل خانہ کے اخراجات پورے کرنے میں کوئی دقت نہ ہو اور صرف اس غرض کے لیے وہ خیانت کرنے سے بے نیاز ہو جائیں۔[1]آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جب ان کی تنخواہیں بدرجہ کفایت ہوں گی تو یہ مسلمانوں کے کاموں میں خوش دلی سے لگیں گے۔ کسی نے یہ کہا کہ پھر دوسرے عمال کی طرح اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کیجئے تو جواب دیا کہ نہ تو ان کا حق روکتا ہوں اور نہ ان کو ناحق دیتا ہوں۔‘‘ آپ کے اہل خانہ بڑے مجاہدہ اور جفا کشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ آپ نے اس کا عذر یہ پیش کیا کہ انہوں نے پہلے بڑے عیش کے دن گزارے ہیں۔[2]
عاملوں کی تنخواہیں بڑھانے سے آپ کی بنیادی غرضیں دو تھیں:
۱۔ خیانت کا دروازہ بند ہو کہ انہیں اتنی تنخواہ مل جائے کہ یہ مسلمانوں کا مال چوری کر کے نہ کھائیں۔
۲۔ تاکہ یہ ذمہ دارانِ قوم پوری فراغت قلبی کے ساتھ عوام کے امور سر انجام دیں۔[3]
۲۔ جھوٹ سے بچنے کی حرص
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ملنے گیا تو وہاں عامل کوفہ بھی بیٹھا تھا۔ آپ اس پر ناراض ہو رہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’یہ کہتا ہے کہ میں جھوٹے گواہ کی زبان کاٹ دوں گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’اے امیرالمومنین! یہ ایسا نہیں کرنے والے۔‘‘ اس پر آپ نے ناگواری سے فرمایا: ’’اس شیخ کو تو دیکھو! بے شک جھوٹ اور سچ کے دو درجوں میں بظاہر ہر خوبصورت درجہ جھوٹ ہے مگر وہ سب سے برا درجہ ہے۔‘‘[4]یوں آپ نے ایسی بات کہنے سے جو کر نہ سکیں منع کر کے، ادارتی بگاڑ، مکرو فریب اور فیصلوں میں دھاندلیوں کے چلن کی جڑ کاٹ کے رکھ دی۔[5]
۳۔ تحفے لینے کی ممانعت
جس شخص نے آپ کے سامنے یہ دلیل پیش کر کے والیوں اور حکمرانوں کے ہدیے تحفے لینے کے جواز کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو ہدیے لے لیا کرتے تھے، آپ نے اس کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس دور میں وہ ہدیہ تھا پر آج کل یہ رشوت ہے۔‘‘[6]
[1] النموذج الاداری: ص ۳۱۴۔
[2] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن النموذج الاداری: ص ۳۱۵۔
[3] النموذج الاداری: ص ۳۱۵۔
[4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۱۳۴۔
[5] النموذج الاداری: ص ۳۱۶۔
[6] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۱۸۹۔