کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 435
قضاء اور فصل خصومات کی تفصیل بھی بیان ہو چکی، آپ نے فصل خصومات میں عدل کو بنیاد ٹھہرایا، اور قاضیوں کے لیے علم، فقہ، کتاب وسنت سے واقفیت اور نیکی وغیرہ کو شرط قرار دیا۔[1] اس غرض کے لیے آپ نے کن لوگوں کو مختلف اقالیم میں قاضی مقرر کیا۔اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ کی نظر میں محکمہ قضا میں بنیادی اعتبار حق کی طرف رجوع کا تھا کہ یہ باطل میں حد سے بڑھنے سے بہتر ہے۔[2] قتیبہ بن مسلم کی بابت اہل سمرقند کی شکایت اور ایک قاضی مقرر کرنے کا قصہ گزشتہ میں بیان ہو چکا۔ جو بتلاتا ہے کہ آپ اختیارات میں فصل کا بدرجہ اتم ادراک رکھتے ہیں۔ چنانچہ اہل سمرقند کی شکایت بجا دیکھی تو قتیبہ کو ان پر والی باقی نہیں رکھا۔ حالانکہ آپ چاہتے تو انہیں والی برقرار رکھنے کا اختیار خلیفہ ہونے کے ناطے آپ کے پاس تھا۔ لیکن آپ نے یہ معاملہ قاضی کے سپرد کیا کیونکہ قاضی صرف حکم خدا کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے اور امر شرعی کی تطبیق کرتا ہے۔ اسی طرح آپ نے سمرقند کے عربوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی چھاؤنیوں میں چلے جائیں یعنی آپ نے انہیں جلا وطن ہونے کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے غیر شرعی طریقہ سے شہر پر اور اس کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔[3] آپ نے بیت خلافت کی بھی تنظیم کی اور اس کو رعایا کے لیے ایک گھر کا درجہ دیا نا کہ شاہی محل کا۔ آپ نے گزشتہ خلفاء کے سب ٹھاٹھ باٹھ یکسر ختم کر دیئے۔ اور بعض وظائف بھی ختم کر دیئے جیسے خلیفہ کے سامنے خنجر لے کر چلنے والے محافظ کا وظیفہ، جو گزشتہ خلفاء دیا کرتے تھے۔ آپ نے اسے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ بھائی تیرا میرا کیا تعلق، میرے آگے نہ چلا کرو، میں تو ایک عام مسلمان ہوں، اور پھر یہ کہہ کر سب کے ساتھ چلنے لگے۔[4] ۶… دور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ میں ادارتی بگاڑ کی اصلاح آپ نے ادارتی بگاڑ کے سب رستے بند کر دیئے اور ان کی حفاظت کا زبردست انتظام کیا، چنانچہ آپ نے خیانت، رشوت، امراء کے تحفے لینے دینے کی رسم، فضول خرچی کے سب رستے بند کیے اور امراء وولاۃ کو تجارت میں لگنے سے منع کیا۔ اسی طرح امراء وحکمرانوں کو پردوں اور حجابوں میں رہنے سے بھی منع کیا اور انہیں سابقہ والیوں کی طرح عوام کے ساتھ ظلم وجور کرنے سے بھی منع کیا۔ اس کی مختصر تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے:
[1] النموذج الاداری: ص ۴۰۳۔ [2] النموذج الاداری: ص ۴۰۳۔ [3] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الاسلامی: ۱/ ۴۰۷۔ [4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۶۵۔