کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 433
پھر سیاسیات کا اختیار کرنا یہ آپ کی منصوبہ بندی کے اجزائے لازمیہ میں سے ہوتا تھا، جو آپ کی ادارتی تطبیق میں کھل کر سامنے آتا تھا۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اپنے تمام منصوبوں میں، ان کی سیاسات میں، ان کی تطبیق میں صرف اور صرف کتاب وسنت پر اکتفا کیا۔[1]آپ مسائل شرعیہ میں کسی جھگڑے پر کان نہ دھرتے تھے۔ اور آپ نے کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ آپ حاکم ہیں اور قوت نافذہ آپ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے آپ خلافت ورعایا کے ساتھ جو چاہیں کریں، بلکہ ہمیشہ خود کو بھی، ارکان خلافت کو بھی اور رعایا کو بھی قرآن وسنت کا پابند بنایا۔ [2]
یہ سیاست عامہ کے اختیار کرنے کی بابت آپ کی تحدید تھی کہ کتاب وسنت سے متجاوز نہ ہوا جائے۔ یہی حال عملی اقدامات کا بھی تھا جس کا اظہار آپ نے خلافت سنبھالنے کے بعد رعایا کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں کیا تھا کہ آپ شرعی احکام کو نافذ کرنے والے ہیں نا کہ نت نئے احکام اپنی طرف سے بنانے والے ہیں جس کی تفصیل آپ کے پہلے خطبہ میں گزر چکی ہے کہ آپ تعلیمات دینیہ کو نافذ کرنے والے ہیں اور یہ کہ اطاعت اسی کی ہے جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔[3] اور یہ کہ آپ کے عمل کی اساس اقامت حق ودین، عدل واحسان اور اصلاح ہوگی ناکہ ظلم وجور[4] آپ نے خلافت کے سب پہلوؤں کے تناظر میں ہمہ گیر منصوبے تشکیل دیئے۔ لہٰذا سیاست حکم، قضاء اقتصادیات، تجارت، تعلیم و تربیت سب پر توجہ دی۔ امور عامہ کے ساتھ ساتھ بعض اقالیم پر جیسے عراق اور خراسان پر خاص توجہ دی۔ پھر بیت المال، قضاء اور والیان خراج وغیرہ کے اداروں پر بھی خصوصی توجہ دی۔[5]
۵… عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زیر نگرانی نظم وضبط
منصوبہ بندی کی تکمیل نظم وضبط سے ہوتی ہے تاکہ مطلوبہ اقدامات کی بنیاد رکھی جا سکے، آپ نے تنظیم کو پہلی ترجیح دی اور اپنے ادارتی رویے میں اس کو جاگزیں کیا۔
آپ کے عملی تنظمی ڈھانچے کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے خلافت کے اعمال کو چودہ بنیادی صیغوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اور یہ چودہ صیغے چار ارکان کی زیر نگرانی تھے جو یہ ہیں: والی، قاضی، خزانچی اور خلیفہ[6] ان کے علاوہ یہ تنظیمات بھی تھیں، خراج، فوج، مکاتب، پولیس، حفاظتی گارڈ، صاحب خاتم اور دربان وغیرہ۔
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۵۔
[2] النموذج الاداری: ص ۳۹۷۔
[3] سیرۃ عمر: ص ۳۵۔ ۳۶۔
[4] سیرۃ عمر: ص۱۰۲۔
[5] النموذج الاداری: ص ۴۰۰۔
[6] النموذج الاداری: ص ۴۰۱۔