کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 432
بھیجا۔[1]آپ نے اس نظام کا نام ’’رقابت عامہ‘‘ (جنرل انویسٹی گیشن) رکھا۔ چنانچہ حج کے موقع پر یہ خط لکھ بھیجا: ’’میں تم میں سے ہر ظالم کے ظلم سے بری ہوں… سن لو! کسی مظلوم کو میرے پاس آنے سے روکا نہ جائے اور میں ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہوں۔ اور جو عامل بھی حق سے منہ موڑے گا اور کتاب وسنت پر عمل نہیں کرے گا، تمہارے ذمے اس کی اطاعت نہیں اور جس نے بھی کسی امر کی اصلاح کی اسے ایک سے تین سو کے درمیان دینار دیئے جائیں گے۔‘‘ [2]آپ نے سب سے بڑے اسلامی اجتماع میں یہ اہم ترین اعلان کیا۔ اور لوگوں کو مادی اور معنوی طور پر ابھارا۔ اور کتاب وسنت کے خلاف پر عمل کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ امر طبعی ہے کہ مسلم قوم کو اپنے مقاصد مطلوبہ حاصل کرنے کے لیے کتاب وسنت کے سوا دوسری تعلیم کی ضرورت نہیں۔[3] ۴… انتظامی امور میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی منصوبہ بندی عام معنی میں تو منصوبہ بندی اس لائحہ عمل کو کہا جاتا ہے جو مستقبل کی ضروریات اور منصوبوں کو حاصل کرنے اور ان کے حصول کے لیے وسائل کی تحدید کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔[4] اور یہ بھی معروف ہے کہ منصوبہ بندی کو حاضر اور مستقبل کے درمیان پل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس عام تعریف کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں منصوبہ بندی سے مراد، زمانہ حاضر میں انسان کا مستقبل کی زندگی میں پیش آمدہ احوال وواقعات کے لیے تیاری کرنے کا نام ہے۔[5] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منصوبہ بندی اور نتائج پرنظر رکھے بغیر کوئی اقدام نہ کرتے تھے۔ اس بات کی طرف آپ کا رجاء کو یہ قول بھی اشارہ کرتا ہے کہ: اے رجاء! اللہ نے مجھے عقل دی ہے میں ڈرتا ہوں کہ مبادا رب تعالیٰ مجھے اس عقل کی بنا پر عذاب نہ دے۔[6] آپ رب تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے تھے، پھر معلومات جمع کرتے اور نہایت حسنِ تدبیر سے اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو علم کے بغیر کوئی کام کرنے چلے گا وہ سدھار کے بجائے بگاڑ زیادہ کرے گا۔[7] آپ اپنی کارروائیوں کی حد مقرر کرتے، ان کے مقاصد واضح کرتے اور آپ کے مقاصد کا رئیسی ہدف ’’اصلاح‘‘ اور نبوی اور خلافت راشدہ کے منہج پر ’’راشدی تجدید‘‘ تھا۔ اور اس مقصد کے لیے آپ تمام بنیادی اجزائے ترکیبیہ کو اختیار کرتے جن میں عدل وانصاف کا قیام، ظلم کا ازالہ، خالق اور مخلوق کے درمیان ربط وتعلق کو بحال کرنا اور ان سب صفات کو صحیح اور وسیع اسلامی ماحول میں اجاگر کرنا وغیرہ جیسی باتوں کا ذکر سرفہرست ہے۔
[1] عمر بن عبدالعزیز للزحیلی: ص ۱۸۲۔ [2] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۹۰۔ [3] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر بن عبدالعزیز: ص ۴۱۳۔ [4] الادارۃ، المنیف: ص ۱۴۷۔ [5] الادارۃ فی الاسلام للضحیات، ص: ۷۱۔ [6] عمر بن عبدالعزیز لابن الجوزی، ص: ۲۶۶۔ [7] سیرۃ عمر لابن الجوزی، ص: ۲۵۰۔