کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 431
رعایا کو حاصل ہوں، اس لیے آپ آنے جانے والوں سے ان کے علاقوں کے احوال دریافت کرتے۔ چنانچہ جب زیاد بن ابی زیاد مدنی آئے تو آپ نے ان سے مدینہ کے ہر شخص مرد عورت بچوں بوڑھوں تک کا حال دریافت کیا اور وہاں کے صلحاء کا حال اور امور ولایت بھی پوچھے۔‘‘[1]
آپ اکثر مزاحم کے ساتھ سوار ہو کر نکل جاتے اور دیہاتوں سے آنے والوں سے وہاں کے احوال دریافت کرتے۔ اسی طرح ایک دن ایک دیہاتی مل گیا۔ آپ نے اس سے پیچھے کی خبر پوچھی تو کہنے لگا: ’’چاہو تو سب بتا دوں اور چاہو تو بعض باتیں بتلا دیتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں سب بتلاؤ۔‘‘ تو بولا: میں نے اپنی بستی اس حال میں چھوڑی ہے کہ وہاں کا ظالم مقہور ہے، مظلوم منصور ہے، غنی آسودہ حال ہے اور تنگدست مجبور ہے۔‘‘ آپ اس کی یہ بلیغ بات سن کر بے حد خوش ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اگر سب علاقے ایسے ہو جائیں تو مجھے یہ دنیا بھر سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘[2]
ایک خراسانی جب لوٹنے لگا تو اس نے آپ سے ڈاک کے ذریعہ واپس جانے کا مطالبہ کیا۔ آپ اس کو اچھی طرح دیکھ بھال چکے تھے، آپ نے کہا: ’’اچھا اگر تم ہمارا ایک کام کر دو تو میں تمہیں ڈاک کی سواری دے دیتا ہوں‘‘، وہ تیار ہوگیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہیں ہمارا جو عامل بھی ملے اس کی سیرت دیکھنا، نیک ہو تو خبر دینے کی ضرورت نہیں۔ بری ہو تو ہمیں لکھ بھیجنا۔‘‘ چنانچہ اس کا خراسان پہنچنے تک جس عامل کے بارے میں بھی خط آتا رہا آپ اس کو معزول کرتے گئے۔[3]
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کتنے مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی کرتے تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ولاۃ وامراء اور رعیت کے امور کی دقیق معرفت صحیح معلومات کے حصول پر مبنی ہوتی ہے اور اسی معلومات پر رعایا اور خلافت کے لیے مفید اوامر ونواہی اور توجیہات کی بنیاد ہوتی ہے۔ آپ کی ان توجیہات اور عمال کے احوال کی خبر گیری نے مملکت کے احوال کے استقرار واستحکام میں بے حد اہم کردار ادا کیا، جبکہ دوسری طرف اس سیاست نے عمال کو ہر وقت مستعدی کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ابراہیم بن جعفر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ترغیب کی وجہ سے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم دن رات کام کیا کرتے تھے۔‘‘[4]
آپ اقالیم کی خبریں اکٹھی کرنے کے لیے وہاں تفتیشی افسران کو بھیجا کرتے تھے۔ چنانچہ خراسان کے نظامِ خراج میں ہونے والے مظالم کی تفتیش کے لیے آپ نے تین افسران کو وہاں بھیجا۔ یہ نظامِ خراج عدی بن ارطاۃ نے مقرر کیا تھا۔ اسی طرح عراق کے احوال کی دریافت کے لیے بھی آپ نے ایک تفتیشی افسر
[1] اثر العلماء: ص ۱۸۷۔
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۱۵۔
[3] تاریخ دمشق نقلا عن اثر العلماء: ص۱۸۸۔
[4] الطبقات: ۵/ ۳۴۷۔