کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 430
۳… حکومتی امور کی براہِ راست نگرانی
آپ خلافت کے ہر چھوٹے بڑے کام کی نگرانی براہِ راست خود کرتے تھے۔ آپ اپنے عاملوں کی پوری نگرانی اور خبر گیری کرتے۔ اس باب میں خبر رساں اداروں اور عبدالملک بن مروان کے بنائے گئے ڈاک کے نظام سے آپ نے بھر پور مدد لی۔ خبر رساں اداروں سے آپ تمام ملک کی خبریں اکٹھی کرتے۔ اگرچہ آپ ابتدا ہی سے عاملوں کے انتخاب میں بے حد احتیاط کرتے مگر اس کے باوجود ان کی پوری پوری نگرانی بھی کرتے۔ آپ آج کا کام کل پر کبھی نہ چھوڑتے اور ہر کام میں سنجیدگی برتتے۔ ایک مرتبہ کسی نے آرام کرنے کو کہا تو فرمایا: ’’پھر میرا آج کا کام کون کرے گا؟‘‘ کہا گیا، کل کر لیجئے گا۔ تو فرمایا: ’’مجھے ایک دن کا کام اتنا تھکا دیتا ہے بھلا میں ایک دن میں دو دن کا کام کیسے کروں گا۔‘‘[1]
میمون بن مہران کہتے ہیں: ’’ایک رات میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا، میں نے عرض کیا: اے امیرالمومنین! آپ کے معمولات دیکھ کر میں نہیں سمجھتا کہ آپ زیادہ جی پائیں گے۔ دن بھر لوگوں کے کاموں میں لگے رہتے ہیں، رات کو ہمارے ساتھ مصروف رہتے ہیں، آگے اللہ جانے کہ خلوت میں آرام کرتے ہیں یا عبادت۔‘‘[2]
آپ اپنے اوقات کا زیادہ تر حصہ ملکی امور کی اصلاح و ترقی کی فکر اور بندوبست میں گزارتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نہایت مختصر وقت میں بے پناہ کام کر گئے آپ نے اپنی تمام سیاسی واقتصادی اصلاحات اپنے عاملوں کو لکھ بھیجیں تاکہ وہ بھی بلا دو امصار میں ان کی تنفیذ کریں۔ آپ اپنے عاملوں کو اس بھاری ذمہ داری کا بھر پور احساس دلاتے جو ان کے کندھوں پر پڑی تھی۔آپ ان کی تربیت کرتے، وعظ ونصیحت کرتے۔ رب سے ڈراتے اور انہیں حکم دیتے کہ جو بھی کریں اور جو بھی ترک کریں اس میں خوف خدا اور تقویٰ کو سامنے رکھیں۔[3]
آپ کے ارشادات وتوجیہات اور مواعظ ونصائح کا ان کے نفسوں پر کوڑے مارنے اور معزول وغیرہ کر دینے کے امور سے بھی زیادہ اثر مرتب ہوتا۔ چنانچہ ایک عامل کو لکھا: ’’اے میرے بھائی! ذرا جہنمیوں کی طویل بیداری اور جہنم میں ان کے دائمی قیام کو تو یاد کرو۔ آپ کی اس نصیحت کا اس عامل پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ لمبا سفر طے کر کے آیا اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
آپ صرف لکھ ہی نہ بھیجتے تھے بلکہ ان سیاسی اصلاحات کی تنفیذ بھی کرواتے تاکہ اس کے نیک آثار
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۵۵۔
[2] الطبقات: ۵/ ۳۷۱۔
[3] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ: ص ۱۸۶۔