کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 43
روپڑے پھر یہ آیت پڑھی’ ’حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرْ ‘‘ (التکاثر: ۲) (یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں )۔ پھر فرمایا ’’ہم قبریں دیکھ کر رہیں گے اور جو بھی قبریں دیکھے گا وہ جنت یا دوزخ میں سے کسی نہ کسی ایک جگہ ضرور لوٹے گا۔‘‘ [1]
معاشرتی اثرات:
کسی بھی معاشرے کا لوگوں کے کردار کی تعمیر وتشکیل میں بنیادی اوراہم کردار ہوتا ہے۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جس دور میں حیات مستعار گزاری تھی اس پر صلاح وتقویٰ، طلب علم اور کتاب وسنت پر عمل کا راج تھا۔ اور ابھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک معتدبہ تعداد مدینہ منورہ میں باقی تھی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب، حضرت سائب بن یزید اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کی۔ اور آپ نے جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے وہ پیالہ ہدیہ میں مانگ لیا جس میں سے حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا تھا اور آپ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی امامت کروانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اس نوجوان سے بڑھ کر کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔[2] مدینہ کے قیام نے آپ پر نفسیاتی اثرات اور ایمانی معانی کے مفاہیم کو مرتب کیا۔ آپ کا رب تعالیٰ سے روحانی تعلق بے حد مضبوط ہوگیا۔ بہرحال مدینہ منورہ کے پاکیزہ ماحول نے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی شخصیت کی تشکیل وتکمیل میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ [3]
مدینہ منورہ کے اکابرعلماء فقہاء کے ہاتھوں تربیت:
آپ کے والد ماجد نے آپ کی تربیت کے لیے صالح بن کیسان جسے نابغۂ روز گار شخص کا انتخاب کیا۔ صالح نے آپ کی صالح تعلیم وتربیت اور اصلاح وتادیب کا بیڑا اٹھایا، آپ نماز پنجگانہ اہتمام کے ساتھ مسجد میں ادا کرتے تھے، ایک دن آپ کو باجماعت نماز سے تاخیر ہوگئی جناب صالح نے تاخیر کی وجہ دریافت کی تو عرض کیا کہ بالوں کو سنوارنے میں تاخیر ہوئی۔ صالح نے یہ سنتے ہی کہا ’’تو اب بالوں کا سنوارنا تمہیں باجماعت نماز سے زیادہ محبوب ہونے لگا۔ او ریہ بات آپ کے والد ماجد کو اسی وقت لکھ بھیجی۔ والد ماجد نے بر وقت تادیب کے لیے فوراً ایک قاصد روانہ کیا جس نے آپ کے ساتھ اس وقت تک بات نہ کی جب تک کہ آپ نے سرنہ منڈوالیا۔[4]
آپ کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز ادا کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اس لیے آپ قیام اور قعدہ
[1] الرقۃ والبکاء لابن ابی الدنیا،رقم الحدیث: ۴۲۵
[2] سیراعلام النبلاء: ۵/۱۱۴
[3] الجوانب التربویۃ فی حیاۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۲۳
[4] البدایۃ والنھایۃ : ۱۲/۶۷۸