کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 429
تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے ہو۔ میں نے تمہیں ایسی جگہ نماز پڑھتے دیکھا ہے جس کے بارے تمہارا یہ گمان تھا کہ یہاں مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ میں نے دیکھا کہ تم نماز کو خوب سنوار کر پڑھتے ہو، یہ تلوار لو! میں نے تمہیں اپنا محافظ مقرر کیا۔[1] آپ نے اپنے عاملوں کو لکھ بھیجا کہ ’’سوائے اہل قرآن کے ان امور پر کسی کو عامل نہ بنانا۔ کیونکہ اگر اہل قرآن میں خیر نہیں تو دوسروں میں بدرجہ اولی خیر نہیں۔‘‘[2] اور اگر کسی شخص میں جس کو آپ عامل بنانا چاہتے، کسی قسم کا شک ہوتا تو اس کا حال واضح ہونے تک اس کو عامل نہ بناتے۔ گزشتہ صفحات میں بلال بن ابی بردہ کا واقعہ تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے جو آپ کی بے حد تعریف کرتا تھا۔ لیکن جب عراق کی ولادت کی بابت اس کا امتحان لیا گیا تو وہ ایک دنیا دار اور چند ٹکوں میں بک جانے والا آدمی نکلا تو آپ نے اس کو مسجد سے نکال باہر کیا۔[3] آپ ظلم کے رسیا اور ظالموں کے ساتھیوں کو ہرگز والی نہ بناتے تھے بالخصوص حجاج کے ساتھیوں کو تو ہرگز والی نہ بناتے تھے۔[4] آپ سے پہلے اموی خاندان کو امور ولایت میں جو اہمیت حاصل تھی، آپ کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہ تھی۔ چنانچہ اوزاعی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کے پاس گھر میں بنو امیہ کے سربرآوردہ لوگ بیٹھے تھے، تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ یہ پسند کرتے ہو کہ میں تم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی جگہ کا والی بنا دوں؟ اس پر ایک بولا: ’’آپ ہمیں ایک ایسی بات کی پیش کش کر رہے ہیں جو آپ کرنے والے نہیں۔‘‘ اس پر آپ نے فرمایا: ’’یہ میرا بچھونا تم لوگ دیکھ رہے ہو؟ میں جانتا ہوں کہ یہ پرانا ہو جائے گا لیکن پھر بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تم اس کو اپنے پیروں تلے کچلو۔ تو بھلا میں مسلمانوں کی عزتیں اور ان کے مال پامال کرنے کے لیے تم لوگوں کے ہاتھ میں کیونکر دے سکتا ہوں؟ دور، دور۔‘‘[5] بلاد وامصار پر والیانِ امر کی تعیین کی بابت آپ کی اس سیاست سے ساری رعایا خوش تھی، کیونکہ اب ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو ان کے ساتھ حجاج یا اس کے والیوں جیسا بے رحمانہ، متشددانہ اور مستبدانہ سلوک کرتا اور نہ کوئی ایسا متعصب والی تھا جو محض عصبیت کی بنیاد پر کسی کو ذلیل کرتا یا کسی کو عزت دیتا تھا۔[6]
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۳۱۔ [2] ایضًا : ص ۸۔ [3] تاریخ دمشق نقلا عن اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ: ص ۱۸۲۔ [4] اثر العلماء: ص ۱۸۲۔ [5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۳۲۔ [6] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ: ص ۱۸۳۔