کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 428
جگہ ایوب بن شرحبیل بن اکسوم بن ابرہہ بن صباح کو والی بنا دیا۔[1]
۸۔ والی مغرب اسماعیل بن عبیداللہ بن ابو المہاجر المخزومی
یہ بڑے نیک، فاضل اور عابد وزاہد تھے۔ ۹۹ یا ۱۰۰ہجری میں افریقہ آئے۔ نیک سیرت تھے، اہل افریقہ میں حق قائم کیا، بے شمار بربروں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا، آپ نے انہیں خط لکھے تھے کہ ’’ذمیوں کو اسلام کی دعوت دو۔‘‘ اسماعیل نے آپ کا یہ خط انہیں پڑھ کر سنایا۔ ۱۳۲ہجری میں وفات پائی۔[2]
۹۔ والی اندلس سمح بن مالک
امیر شہید، سیّدنا عمر کی طرف سے اندلس کے والی تھے، آپ نے انہیں زمینوں میں فرق کرنے پر مقرر کیا کہ کون کون سی زمین عنوۃً فتح ہوئی ہیں تاکہ ان میں سے خمس لیا جائے، آپ نے انہیں اندلس کے احوال لکھ بھیجنے کو بھی لکھا۔ ۱۰۰ہجری میں اندلس آئے اور آپ کے حکم کی تعمیل میں زمینوں کا جائزہ لیا، فرنگیوں کی سر زمین پر جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔[3]
یہ ان نیک والیوں کا ایک مختصر تذکرہ ہے جن کے بارے میں آپ کو حسن ظن تھا اور آپ نے اسی حسن ظن کی بنا پر انہیں مختلف اقالیم کا والی بنایا تھا۔
۲… نیک اور خیر خواہ لوگوں کو تلاش کر کے عامل بنانے کی حرص
بلاد وامصار کے امراء وحکمران خلیفہ کے نائب اور رعایا اور خلیفہ کے درمیان ایک واسطہ ہوتے ہیں، کوئی بھی خلیفہ خواہ وہ کتنا ہی مخلص، زیرک اور حسن سیاست کا مالک ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنے سیاسی اہداف میں اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ خوب تحقیق کر کے اور چھان پھٹک کر کے اپنے عامل چنے اور انہیں مقرر کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے ولاۃ وامراء کے انتخاب میں حد درجے احتیاط سے کام لیا۔ جب ہم اس موضوع پر آپ سے متعلقہ روایات پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ آپ نے چند شرائط مقرر کر رکھی تھیں جو ان پر پورا اترتا تھا اس کو ہی آپ والی اور امیر بناتے تھے۔ ان میں سے تین شرائط سب سے زیادہ اہم تھیں۔ تقویٰ، امانت اور دینداری۔ جب آپ نے خالد بن ریان کو جو ولید بن عبدالملک کے دور میں جو محافظوں کا افسر اعلیٰ تھا، معزول کر دیا تو عمرو بن مہاجر کو اس کی جگہ مقرر کیا اور کہا: ’’اے عمرو! اللہ کی قسم! تم اس بات کو جانتے ہو کہ میرے اور تیرے درمیان سوائے اسلام کے اور کوئی رشتہ نہیں۔ البتہ میں نے
[1] عمرو سیاستہ فی رد المظالم: ص ۲۸۹۔
[2] ایضًا : ص ۲۹۳۔
[3] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار : ص ۲۷۱۔