کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 426
پوچھا: ’’اے ابو یحییٰ! جانتے ہو ہم کس حال میں تھے؟ میں نے کہا: ’’نہیں! میں نے آپ لوگوں کو وجد کی ایک حالت میں دیکھا تو دوسروں کے ساتھ میں نے بھی ہاتھ اٹھا دیئے۔‘‘ اس پر جراح حکمی بولے: ’’ہم نے اللہ سے شہادت مانگی تھی۔‘‘ پھر اللہ کی قسم! اس غزوہ میں ان میں سے ہر ایک شہید ہو کر رہا۔‘‘[1] خلیفہ مالکی بیان کرتے ہیں: ’’جراح نے (آذربائیجان کی بستی) برذعہ سے سن ۱۱۲ ہجری میں ’’ابن خاقا‘‘ کی طرف کوچ کیا اور گھمسان کی جنگ کی، ماہِ رمضان میں جراح نے جام شہادت نوش کیا، آذربائیجان پر ’’خرز‘‘ نے قبضہ کر لیا اور وہ لوگ موصل تک پہنچ گئے۔[2] اس دن جراح کی شہادت سے مسلمانوں پر عظیم مصیبت ٹوٹی، فوج کا ایک ایک سپاہی ان پر گریہ کناں تھا۔[3] ۲۔ والی بصرہ، عدی بن ارطاۃ یہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے بصرہ کے والی تھے، حضرت عمرو بن عبسہ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے حدیث روایت کرتے تھے، عبادہ بن منصور بیان کرتے ہیں کہ ’’عدی نے منبر پر ہمیں ایسا رقت آمیز خطبہ دیا حتیٰ کہ خود بھی روئے اور ہمیں بھی رلایا اور سب کی نگاہیں اشکبار ہوگئیں۔‘‘[4] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ انہیں وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔ معمر بیان کرتے ہیں: سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن ارطاۃ کو خط لکھا: ’’تم نے اپنے سیاہ عمامہ اور مجلس قراء کی وجہ سے دھوکا دیا۔ بے شک رب تعالیٰ نے ہمیں ان بیشتر باتوں سے آگاہ کر دیا ہے جن کو تم لوگ چھپاتے ہو، کیا تم قبروں کے درمیان نہیں چلتے؟‘‘[5] عدی بصرہ آئے تو ابن مہلب کو گرفتار کر کے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بھیج دیا، آپ کی وفات کے بعد ابن مہلب بھاگ نکلا اور اپنی دعوت دینے لگا اور اپنا نام قحطانی رکھ لیا۔ اس نے سیاہ جھنڈے نصب کیے۔ اور کہتا تھا کہ ’’میں تم لوگوں کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘ مسلمہ بن عبدالملک نے ایک جنگ میں ابن مہلب کو قتل کر دیا، اتنے میں ابن مہلب کے بیٹے معاویہ نے چھلانگ لگا کر عدی بن ارطاۃ کو ایک جماعت سمیت قتل کر دیا۔‘‘[6]دارقطنی کہتے ہیں کہ عدی کی حدیث حجت ہے۔ ۳۔ والی کوفہ عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب آپ امام، ثقہ، عدل ابو عمر العدوی خطابی مدنی اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے کوفہ کے والی تھے۔ بڑے جلیل القدر تھے۔ ۱۱۵ہجری میں وفات پائی۔[7]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۹۰۔ [2] ایضًا [3] ایضًا [4] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۵۳۔ [5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۵۳۔ [6] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۵۳۔ [7] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۴۹۔