کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 425
آٹھویں فصل :
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی انتظامی فقہآخری ایام اور وفات حسرت آیات۱… سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مشہور والی
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے رعایا کے امور سنبھالنے اور ان میں حق قائم کرنے کے لیے ایسے والیوں کا انتخاب کیا جو نیک اور بااعتماد تھے، جو علم، امانت، تقویٰ، صطلاح، تواضع، عفتِ نفس، عدالت، حسن اخلاق، شفقت ورحمت، نیک سیرت، عادتِ مشاورت، خیر خواہی، کسر نفسی، ذہانت وذکاوت، حکمت و تدبیر، استعداد وصلاحیت اور ہر خوبی سے آراستہ اور تمام اخلاقی رذائل سے پاک تھے۔ امام ابن کثیر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے والیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’متعدد ائمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جن جن کو بھی والی بنایا تھا وہ سب کے سب ثقہ تھے۔‘‘[1]
ذیل میں آپ کے چند والیوں کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے:
۱۔ والی خراسان وسجستان حجاج بن عبداللہ حکمی
علامہ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’لشکروں میں آگے، زبردست شہسوار، ابو عقبہ الجراح بن عبداللہ الحکمی حجاج کی طرف سے والی بصرہ، پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے خراسان اور سجستان کے والی تھے۔ غضب کے بہادر، بے مثال شجاع، مرد میدان، بطل جلیل، زبردست رعب داب اور مصیبت ودھاک کے مالک، عابد وزاہد، قاری اور بڑی شان کے مالک تھے۔[2] جراح حکمی خود کہتے ہیں کہ چالیس سال تک میں نے مارے شرم کے گناہ چھوڑے رکھے۔ پھر مجھے ورع حاصل ہوگیا۔[3] آپ پورے خراسان کے جنگی، مالی اور دوسرے متعلقہ امور پر مقرر تھے۔[4] آپ نے ہشام کے دور خلافت میں ۱۱۲ہجری میں شہادت پائی۔ سلیم بن عامر آپ کی شہادت کا ایمان فروز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں جراح کے پاس گیا تو انہوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے، تو دوسرے امراء نے بھی کیے، کافی دیر بعد انہوں نے مجھ سے
[1] البدایۃ والنھایۃ، نقلا عن عمر بن عبدالعزیز، از شیخ عبدالستار: ص ۲۷۰۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۸۹۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۹۰۔
[4] ایضًا