کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 424
نصرانی کی مسلمان ہو جانے والی بیوی کے بارے میں یہ قول ہے کہ ’’اسلام نے اس عورت کو نصرانی کے نکاح سے باہر کر دیا۔‘‘[1]
اور جب بیوی مسلمان ہو جائے اور خاوند ابھی تک کافر ہو تو دونوں کے درمیان تفریق واجب ہے تاکہ ایک کافر کو ایک مسلمان عورت پر ولایت حاصل نہ رہے، دوسرے شریعت میں یہ جائز بھی نہیں اور یہی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے تھی۔[2] البتہ یہ تفریق اس وقت کی جائے جب خاوند پر بھی اسلام کو پیش کر دیا جائے اور وہ مسلمان ہونے سے انکار کر دے، آپ کے نزدیک خاوند کا یہ انکار طلاق بائنہ کے درجے میں ہے۔[3] البتہ اگر عورت کی عدت کے دوران خاوند بھی مسلمان ہو جائے تو اس کا زیادہ مستحق وہی ہے۔[4]
۱۳۔ غائب کے انتظار کی مدت کا بیان
آپ کے نزدیک غیب اور غیر موجودگی کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے، اس کے بعد یا تو وہ بیوی کے پاس لوٹ آئے یا پھر اس کو طلاق دے کر آزاد کر دے۔[5] (یاد رہے کہ یہاں گم شدہ مراد نہیں، کیونکہ گم شدہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی خبر ہی نہ ہو۔ جبکہ غائب سے مراد وہ شخص ہے جو بیوی چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا ملک جا بسا ہو البتہ اس کی وہاں موجودگی کا سب کو علم ہو جیسے آج کل اکثر لوگ بیرون ممالک ملازمتوں کے سلسلے میں چلے جاتے ہیں اور سالہا سال لوٹ کر نہیں آتے بس فون یا خط کے ذریعے رابطہ رکھتے ہیں، ایسے خاوندوں کو دو سال بعد بیوی کے پاس لوٹ آنا چاہیے…مترجم)
یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے وہ چند اجتہادات ہیں جو مسائل شرعیہ میں آپ کے علمی تبحر پر دلالت کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ آپ میں کس قدر اجتہاد کی قدرت تھی، اور آپ جو حکم بھی صادر کرتے تھے وہ کتاب وسنت اور حضرات خلفائے راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کی سنت کے مطابق ہوتے تھے۔ دکتور محمد شقیر نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی فقہ کو دو جلدوں میں جمع کیا ہے ہم نے تو چند مثالیں ذکر کی ہیں جو مزید جاننا چاہتا ہے وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرے۔ مؤلف موصوف نے اس رسالہ کو لکھ کر ریاض سعودیہ عربیہ کی سپریم کورٹ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۵/ ۹۰۔
[2] فقہ عمر: ۱/ ۴۵۰۔
[3] فقہ عمر: ۱/ ۴۵۱۔
[4] فقہ عمر: ۱/ ۴۵۲۔
[5] فقہ عمر: ۱/ ۴۵۵۔