کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 423
۸۔ مذاق میں دی گئی طلاق بھی طلاق ہے آپ کے نزدیک طلاق چاہے مذاق میں دی یا سنجیدگی میں دونوں کا حکم ایک ہے کہ وہ طلاق واقع ہو جائے گی، سلیمان بن حبیب محاربی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے لکھا کہ ’’تم کم عقلوں اور نادانوں کی جو چاہے غلطی معاف کر دو لیکن ان کی دی گئی طلاق اور آزاد کیے گئے غلام کو ہرگز معاف نہ کرو۔‘‘[1] (یعنی کم عقلوں کی طلاق اور غلام کو دی گئی آزادی نافذ ہو کر رہتی ہے)۔‘‘ ۹۔ زبردستی کیے گئے کی طلاق بسا اوقات کسی انسان کو طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مثلاً اس سے ایسی قسم کھلوائی جاتی ہے کہ اگر تم نے فلاں فلاں کام کیا تو تمہاری بیوی کو طلاق اور بسا اوقات جان کی دھمکی دے کر طلاق دلوا دی جاتی ہے۔ تو آیا ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ آپ کے نزدیک زبردستی کیے گئے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔[2] چنانچہ آپ سے روایت ہے کہ ’’مکرہ‘‘ (زبردستی کیے گئے) کی نہ طلاق ہے اور نہ عتاق۔‘‘[3] (یعنی اس کا آزاد کیا گیا غلام بھی آزاد نہیں جب زبردستی کہلوا کر آزاد کرایا جائے۔) ۱۰۔ آدھی طلاق کا حکم سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی بیوی کو آدمی طلاق دے دے تو فرمایا: ’’یہ طلاق واقع نہ ہوگی۔‘‘[4] ۱۱۔ اگر کوئی خاوند بیوی کا امر اس کے سپرد کر دے اور وہ خود کو طلاق دے دے تو اس کا حکم سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک یہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ البتہ یہ ہے کہ ایسی طلاق چاہے تین ہوں لیکن اس کو ایک سمجھا جائے گا، اور اگر مرد رجوع کرنا چاہے تو اسے اس کا حق ہوگا، چنانچہ بنی تمیم کے ایک آدمی کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار دے دیا تھا، یہ فیصلہ لکھ بھیجا کہ ’’اگر تو اس کی بیوی خاوند کے دیئے اختیار کو رد کر دیتی ہے تو کوئی طلاق نہیں ہوئی اور اگر اس نے طلاق دے دی تو وہ ایک ہوگی اور خاوند کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔‘‘[5] ۱۲۔ کافر کی بیوی اگر مسلمان ہو جائے تو اس کا حکم کافر کی بیوی مسلمان ہوتے ہی اس کے نکاح سے نکل جائے گی، اور ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی، معمر بن سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۵/ ۱۰۶۔ [2] فقہ عمر: ۱/ ۴۳۴۔ [3] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۵/ ۵۳۔ [4] ایضًا [5] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۵/ ۵۷۔