کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 421
سلطان ہو۔‘‘[1] ۲۔ اگر کسی عورت کے دو ولی اس کا اپنی اپنی مرضی سے دو آدمیوں سے نکاح کر دیں ثابت بن قیس غفاری کہتے ہیں: میں نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو جہینہ قبیلہ کی ایک لڑکی کا حال لکھ بھیجا کہ ’’اس کے ایک ولی نے اس کا نکاح قیس کے ایک آدمی سے جبکہ دوسرے نے جہینہ کے ایک آدمی سے کر دیا ہے، تو آپ نے اس کا جواب یہ لکھ بھیجا کہ ’’لڑکی کے پاس عادل گواہ بھیجو اور اسے اختیار دو کہ وہ دونوں میں کسی ایک کو جس کو وہ چاہے اپنا خاوند چن لے، پس وہی اس کا خاوند ہوگا۔‘‘ ۳۔ جس عورت سے بدکاری کی تھی اس کے ساتھ بعد میں نکاح کرنے کا بیان اگر کسی نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا، بعد میں اس کے ساتھ نکاح کا ارادہ کر لیا تو آیا وہ اس کے ساتھ نکاح کا ارادہ کر لیا تو آیا وہ اس کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اور کیا یہ اس کے لیے حلال ہے؟ آپ کی اس بارے میں رائے یہ تھی کہ اگر عورت میں خیر نظر آئے تو مرداس کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے، اور یہ ٹھیک رائے ہے جو شر کے کئی دروازے بند کرتی ہے۔ کیونکہ نکاح کی بابت اس کے ساتھ زنا کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں برابر ہیں اور اگر ہم اس کے عدم جواز کا قول کرتے ہیں تو اس کے ساتھ زنانہ کرنے والا اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ اسے اپنے نکاح میں مت لے۔ اور اس میں بے پناہ مفاسد اور عظیم شرور ہیں۔[2] یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ایک عورت سے زنا ہو جائے پھر زانی اس کے ساتھ نکاح میں خیر دیکھے تو کیا وہ اس عورت کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’کر سکتا ہے۔‘‘[3] ۴۔ قیدی مجاہد کی بیوی کے نکاح کا بیان سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ’’ایک مجاہد مسلمان جب تک دشمنوں کی قید میں ہے اس کی بیوی کے ساتھ کسی کا نکاح نہ کیا جائے اور نہ وہ خود کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرے۔‘‘[4] کیونکہ اس مجاہد نے میدان جہاد میں آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے یا اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا اور سر ہتھیلی پر رکھ کر خود کو اسلام پر قربان کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔ اس مجاہد کی اس عظیم قربانی کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ کسی دوسرے کے ساتھ نکاح نہ کرے، اس کی قربانی کی قدر کرے اور اس آزمائش پر صبر کرے یہاں تک کہ وہ دشمنوں کی قید سے آزاد ہو کر آجائے، دوسرے دشمنوں کی قید میں ہونا اور بیوی سے غیر موجود ہونا اس کے بس کی بات نہیں۔ پھر اس بات کا احتمال
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۴/ ۱۳۲۔ [2] فقہ عمر: ۱/ ۴۱۲۔ [3] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۴/ ۲۵۰۔ [4] الطبقات: ۵/ ۳۵۱۔