کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 420
مال خرچ ہو جائے، مسلمان قیدیوں کو چھڑاؤ۔‘‘[1] ایسا ہی ایک دوسری روایت میں بھی آتا ہے۔[2] ربیعہ بن عطاء نے بیان کیا ہے کہ آپ نے ایک مسلمان کے بدلے دس رومی قیدی آزاد کیے تھے۔‘‘[3] ۷۔ مرد، عورت، غلام ذمی سب کو فدیہ دے کر آزاد کرو: ربیعہ بن عطاء کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے بہت سارا مال دے کر ساحل عدن کی طرف بھیجا کہ فدیہ دے کر مرد ، عورت، ذمی، غلام سب کو چھڑا لاؤ۔[4] بلا شبہ یہ آپ کا عدل تھا کہ آپ بلاد اسلامیہ کے ذمی اور غلام تک کو فدیہ دے کر غیروں کی قید سے آزاد کراتے ہیں۔ اور اس کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں، بے شک یہ ذمیوں کے ساتھ مسلمانوں کی وفا اور وعدوں کی پاسداری کا وہ مظہر ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔[5] ۸۔ قیدیوں کو قتل کر دینے سے شدید ناگواری معمر بیان کرتے ہیں: مجھے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ایک شامی محافظ نے بتلایا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی قیدی کو قتل کیا ہو اور نہ کسی ترکی کو۔ چنانچہ جب ترک قیدی آئے تو آپ نے انہیں غلام بنانے کا حکم دیا اس پر انہیں لانے والوں میں سے ایک صاحب بولے: ’’اے امیر المومنین! اگر آپ اس کو اس وقت دیکھ لیتے جب یہ مسلمانوں میں قتال کر رہا تھا اور انہیں قتل کر رہا تھا تو آپ مسلمانوں پر بے حد رو پڑیں۔‘‘ اس پر آپ نے فرمایا: ’’اس ایک کو قتل کر ڈالو۔‘‘ چنانچہ ان صاحب نے اٹھ کر اس خاص ترکی کو قتل کر ڈالا۔‘‘[6] آپ کو قیدیوں کو قتل کرنا ناپسند تھا۔ سوائے اس ایک کے جس نے بے شمار مسلمان قتل کیے تھے آپ نے کسی قیدی کو قتل نہ کیا تھا، البتہ آپ انہیں غلام بنا دیتے تھے۔[7] ۸… نکاح و طلاق کا بیان اس بابت آپ کے اجتہادات کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ بغیر ولی کے عورت کا نکاح سفیان ایک اہل جزیرہ کے آدمی سے اور وہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا، اس کا ولی نکاح میں موجود نہ تھا۔ وہ روم کے اس بیرونی راستے پر تھا جو تھوڑے ہی فاصلے پر تھا، تو آپ نے بغیر ولی کے ہونے والے اس نکاح کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یا تو ولی ہو وگرنہ
[1] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۳۱۱۔ ۳۱۲۔ [2] الطبقات: ۵/ ۳۵۴۔ [3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ۱۲۰۔ [4] الطبقات: ۵/ ۳۵۳۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۴۳۶۔ [6] مصنف عبدالرزاق: ۵/ ۲۰۵۔ ۲۰۶ [7] ۔ فقہ عمر: ۲/ ۴۳۸۔