کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 42
پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر خطبہ دیا اور یہ آیت پڑھی: {اِِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ } (التکویر: ۱) ’’جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔‘‘ پھر فرمایا: سورج کا معاملہ کیا ہے ؟ (پھر اگلی آیت پڑھی) {وَاِِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَت} (التکویر: ۲) ’’اور جب تارے بے نور ہوجائیں گے۔‘‘ پھر آپ تلاوت کرتے کرتے اس آیت پر پہنچے: {وَاِِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ o وَاِِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ } (التکویر: ۱۲۔۱۳) ’’اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی۔ اور جب بہشت قریب لائی جائے گی۔‘‘ تو رو پڑے جس پر حاضرین مجلس بھی روپڑے۔ اور مسجد لوگوں کی گریہ وزاری سے گونجنے لگی۔ یہاں تک کہ مجھے لگا کہ مسجد کی دیواریں بھی آپ کے ساتھ رو رہی ہیں ۔[1] ان آیات میں روز قیامت کے ہولناک مناظر کو ذکر کیا گیا ہے جن کو سن اورپڑھ کر دل شدت خوف سے پھٹے جاتے ہیں ۔ دل کے بے چینیاں اور غم بڑھ جاتے ہیں ، اس منظر کی ہیبت ناکی کا تصور کر کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، رواں رواں سراپا خوف بن جاتا ہے۔ اور یہ آیات عقل والوں کو اس دن کی تیاری پر ابھارتی ہیں اور انہیں ہر قابل ملامت کا م سے روکتی ہیں ۔ اسی لیے بعض اسلاف کا قول ہے : جو روز قیامت کو گویا آنکھوں دیکھے منظر کی طرح دیکھنا چاہتا ہے وہ سورۂ تکویر کی ان آیات میں نگاہ غور وتدبر ڈالے۔[2] بلکہ ایک مرفوع حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو اس بات سے خوشی ہوکہ وہ روز قیامت کو یوں دیکھے جیسے عیاناً دیکھ رہا ہے تو وہ ان سورتوں کی قراء ت کرلے۔ {اِِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ } (التکویر) {اِِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ } (الانفطار) {اِِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ } (الانشقاق) [3] ٭ میمون بن مہران سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ’’اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرْ‘‘ (التکاثر: ۱) ([لوگو!] تم کو(مال کی ) بہت سی طلب نے غافل کردیا) کی تلاوت کی اور
[1] دموع القراء،ص: ۱۱۱۔ ۱۱۲ [2] تفسیر السعدی، ص: ۹۱۲ [3] اخرجہ الترمذی، رقم الحدیث: ۳۳۳۳