کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 419
کا نوجوان گھر رہے گا۔[1] ۲۔ غیر مسلموں سے قتال کیونکر شروع کیا جائے صفوان بن عمر سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: ’’ہمارے پاس سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خط آیا کہ ’’رومیوں کے کسی قلعہ یا جماعت کے ساتھ اس وقت تک قتال شروع نہ کیا جائے جب تک کہ انہیں اسلام کی دعوت نہ دے لی جائے۔ پس اگر تو وہ اسلام کی دعوت قبول کر لیں تو رک جاؤ۔ اگر نہ مانیں تو جزیہ لو وہ بھی نہ دیں تو ان کے ساتھ اعلان جنگ کر دو۔‘‘[2] ۳۔ محاذ پر ایک غازی کتنی مدت تک رہے؟ بلا شبہ اسلامی سر حدوں کی حفاظت و نگہداشت رب تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل ہے اور رب تعالیٰ اس پر بے پناہ اجر و ثواب سے نوازتے ہیں لیکن آپ نے معاشرتی ذمہ داریوں کے تناظر میں محاذ پر زیادہ سے زیادہ رکنے کی مدت چالیس دن مقرر فرمائی۔ چنانچہ فرمایا: ’’سرحدوں پر غازی زیادہ سے زیادہ چالیس دن ٹھہرے کہ یہ ایک کامل مدت ہے۔‘‘[3] ۴۔ غازی مقاتل کے اپنے مال میں تصرف کرنے کا حکم آپ نے فرمایا: ’’جب ایک آدمی اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر جنگ میں قتال کرتا ہے تو وہ اپنے مال میں جو تصرف بھی کرے (یعنی چاہے وقف کرے یا کسی کو وصیت کرے) جائز ہے۔‘‘[4] ۵۔ دشمنوں کو گھوڑے بیچنے کا حکم دشمنوں تک جنگی اسلحہ اور ذرائع نقل وحمل اور سامان رسد پہنچانا اور انہیں بیچنا، جس سے انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں قوت حاصل ہو اور ان کی پیٹھ مضبوط ہو، جرم ہے۔ اور ایسا کرنے والے کو اس سے روکا جائے گا تاکہ دشمنوں تک اسلحہ، سواریاں اور سامان رسد نہ پہنچے۔ اس اصول کی بنا پر آپ نے ہندوستان گھوڑے لے جا کر بیچنا منع کر دیا کیونکہ وہ مشرکوں کا ملک ہے جبکہ اہل اسلام اور بت پرستوں کی عداوت کسی سے پوشیدہ نہیں۔[5] ۶۔ مسلمان قیدیوں کو ہر قیمت پر فدیہ دے کر چھڑانا آپ نے اپنے عمال کو لکھے خطوط میں اس بات پر بے حد زور دیا کہ چاہے جتنا مال خرچ ہو فدیہ دے کر مسلمان قیدیوں کو کفار کی گرفت سے آزاد کراؤ۔ چنانچہ آپ نے ایک عامل کو یہاں تک لکھا کہ چاہے سارا
[1] فقہ عمرہ: ۲/ ۴۱۵۔ [2] الطبقات: ۵/ ۳۵۵۔ [3] الطبقات: ۵/ ۳۵۵۔ [4] الطبقات: ۵/ ۳۵۲۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۴۲۷۔