کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 418
اور فوجی جرنیلوں کو یہ خط لکھا: ’’قیدیوں پر غور کرو، انہیں جرم سے زیادہ سزا مت دو اور جو ان میں سے بیمار ہو جائے اور اس کے پاس نہ تو دوا دارو کے پیسے ہوں اور نہ کوئی عزیز رشتہ دار ہو، اس کا علاج کراؤ اور جیل خانہ پر اس کو مقرر کرنا جو نیک اور رشوت نہ لیتا ہو کیونکہ راشی ہمیشہ حکم عدولی کرتا ہے۔‘‘[1] ۳۔ عورتوں کی خصوصی جیل قیدیوں کے بارے میں آپ نے ایک اور اہم قدم یہ اٹھایا کہ عورتوں کی علیحدہ جیل بنوائی جہاں مردوں کا آنا جانا نہ ہو۔ عورتوں کی علیحدہ جیل کے لیے یقینا دیندار اور بھروسے کے لائق لوگ درکار تھے۔ جو عورتوں کے امور میں دین و دیانت کو ملحوظ رکھ سکیں۔[2] چنانچہ آپ نے جرنیلوں کو یہ خط لکھا: ’’قیدیوں کے امور میں غور کرو، جن پر حد لازم آتی ہے ان پر حد قائم کرو، ان کو جیلوں میں نہ پڑا رہنے دو، جن کا معاملہ مشتبہ ہو، انہیں میری طرف بھیج دو، اور بدمعاش لوگوں کی بابت صحیح معلومات لو، انہیں جیلوں میں ڈالے رکھنا ہی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ جرم سے زیادہ سزا مت دینا، بے خان ومان بیمار قیدیوں کا علاج کروانا اور بدمعاشوں اور عام شہریوں کو ایک جیل میں اکٹھا نہ رکھنا، عورتوں کی جیل الگ بنانا، جیل پر نیک اور اس شخص کو مقرر کرنا جو رشوت لینے کا عادی نہ ہو۔ کیونکہ راشی کو جو جیسا کہے وہ کر ڈالتا ہے۔‘‘[3] ان ہدایات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ باآسانی اخذ کر سکتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو قیدیوں کے امور کا بے حد خیال تھا اور آپ کو ان کے دین اور اصلاحِ احوال کی بے حد فکر تھی۔ آپ قیدیوں کے ساتھ بھی عدل سے کام لیتے تھے اور آپ نے گزشتہ عاملوں کے قیدیوں کے ساتھ ناروا رویوں کی اصلاح کی۔ ۷… جہاد کے احکام آپ نے صیغہ جہاد کی بابت مندرجہ ذیل اصلاحی اقدامات کیے: ۱۔ جہاد میں شرکت کے لیے عمر کا تعین صدر اول کے مسلمان ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے تھے اور جب کسی کو جہاد میں شرکت کی اجازت نہ ملتی تھی تو اس کی حسرت کا عالم دیدنی ہوتا تھا اور وہ ولی امر کو قائل کرنے کی از حد کوشش کرتا تھا کہ وہ جہاد میں جا کر دشمنوں سے لڑ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس کا فیصلہ یوں کر دیا کہ جہاد و قتال میں شرکت کی عمر مقرر کر دی کہ پندرہ سال سے کم عمر کا نوجوان قتال میں شرکت نہیں کر سکتا۔ اور اس سے کم عمر
[1] الطبقات: ۵/ ۳۵۶۔ [2] فقہ عمر: ۲/ ۲۲۸۔ [3] الطبقات: ۵/ ۳۵۶۔