کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 417
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں۔[1]
۶… قیدیوں کے احکام
اس بابت سیرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا جائزہ، ان عناوین کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے:
۱۔ متہمین کا معاملہ جلد نبٹا دیا جائے
آپ نے اس بات کا حکم دیا کہ متہمین کا معاملہ نبٹانے میں جلدی کی جائے، لہٰذا اگر کسی کی فقط تادیب کی ضرورت ہے تو اسے تادیب دے کر فارغ کر دیا جائے۔ اور جس پر کوئی مقدمہ ثابت نہ ہو اس کو چھوڑ دیا جائے۔ آپ کے نزدیک حدود کا قیام قیدیوں کے کم ہونے کا باعث تھا کیونکہ حدود کا قیام فساق و فجار کو فسق و فجور اور برائیوں سے باز رکھتا ہے۔[2] جعفر بن برقان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں خط لکھا … ’’اگر تم حدود قائم کرو گے تو قیدیوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور یہ فسق و فجور کے عادی لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں گے۔ قیدیوں کی تعداد میں اضافہ تبھی ہوتا ہے جب ان کے امور میں غور کم کیا جاتا ہے کیونکہ قید تو قید ہے، ان کے بارے میں فکر و نظر نہیں، اس لیے اپنے والیوں کو حکم دیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر قیدیوں کے امر میں غور کریں۔ لہٰذا جس کی تادیب ضروری ہے اس کی تادیب کر کے چھوڑ دیں اور جس پر کوئی مقدمہ نہیں اسے رہا کر دیں۔‘‘[3]
۲۔ قیدیوں کے امور کا اہتمام
آپ نے ہر امر کی اصلاح کی، ہر شعبہ میں عدل قائم کیا حتیٰ کہ قیدی بھی آپ کی نظر اہتمام سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ آپ نے قیدیوں کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا زبردست خیال رکھا۔[4] جعفر بن برقان بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں خط لکھا کہ ’’قیدیوں پر صدقہ کا مال خرچ کرو اور ان کا کھانا پینا اور لباس درست کرو، ان کے لیے اتنی رقم مقرر کرو جو ان کے کھانے پینے کے لیے کافی ہو جائے۔ اس غرض کے لیے انہیں ماہانہ چند دراہم وظیفہ میں دو، کیونکہ اگر تم ان کے لیے کھانا جاری کرو گے تو وہ جیل کی انتظامیہ اور سپاہی وغیرہ لے اڑیں گے۔ ان پر کسی نیک آدمی کو مقرر کرو جو انہیں ہر ماہ کا وظیفہ دیانت داری سے دے، وہ یوں کہ وہ خود بیٹھے اور نام بنام سب کو بلاتا جائے اور ہر ایک کا وظیفہ خود اس کے ہاتھ میں دیتا جائے، … اور انہیں سردی گرمی کا جوڑا بھی دو، چنانچہ سردیوں میں قمیص کے ساتھ گرم چادر اور گرمیوں میں قمیص کے ساتھ تہبند ہو۔ جبکہ قیدی عورت کو اوڑھنی بھی دو۔ اور جو لاوارث مر جائے اور اس کے عزیز رشتہ دار نہ ہوں تو بیت المال سے اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھ کے اسے دفن کر دو۔‘‘[5]
[1] مغنی المحتاج: ۴/ ۱۹۲۔
[2] فقہ عمر: ۲/ ۲۲۵۔
[3] الخراج لابی یوسف: ص ۳۰۱۔
[4] فقہ عمر: ۲/ ۲۲۶۔
[5] الخراج لابی یوسف: ص۳۰۰۔ ۳۰۱۔