کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 416
آیا محض ظن کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑ لوں اور تہمت پر انہیں سزا دوں یا گواہوں کے پیش ہونے پر انہیں گرفتار کروں؟ تو آپ نے مجھے یہ جواب لکھا: ’’میں سنت کے مطابق گواہوں کے پیش ہونے پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی کروں۔ پس اگر حق کا طریقہ انہیں نہیں سدھارتا تو انہیں اللہ سدھارے۔‘‘ یحییٰ کہتے ہیں: ’’چنانچہ میں نے ایسا ہی کرنا شروع کیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں نے موصل کو چھوڑا تو وہ سب سے زیادہ نیک شہر تھا اور اب وہاں چوری اور نقب زنی بھی سب سے کم تھی۔‘‘[1]
عدی بن ارطاۃ نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو یہ خط لکھا: ’’امابعد! اللہ امیرالمومنین کی اصلاح کرے! مجھ سے پہلے کے عاملوں نے بیت المال سے قومی دولت کو بے تحاشا لوٹا ہے اور بظاہر جب تک انہیں کوئی سزا نہ دوں، میں ان سے لوٹی ہوئی وہ دولت حاصل نہیں کر سکتا، تو کیا …اللہ آپ کا بھلا کرے… آپ مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘ اس خط کا مجھے جو جواب آیا وہ یہ تھا۔‘‘ امابعد! تم نے مجھ سے لوگوں کو سزا دینے کی اجازت طلب کی۔ مجھے اس بات پر از حد حیرت ہوئی گویا کہ میں تمہارے لیے دوزخ کی آگ سے ڈھال ہوں اور گویا کہ میرا تم سے راضی ہونا تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچا لے گا۔ سنو! غور سے دیکھو! جس کے خلاف سچے گواہ ثابت ہو جائیں تو گواہ جس مال کی گواہی دیں وہ لے لو اور جو کسی بات کا خود اقرار کرے وہ بھی اس سے لے لو اور جو نہ مانے اور گواہ بھی نہ ہوں تو اس سے قسم لے کر اس کا رستہ چھوڑ دو، اللہ کی قسم! میں لوگوں کی خیانتیں لے کر اللہ سے جاملوں یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کے خون ناحق سے ہاتھ رنگ کے اللہ سے جاملوں۔‘‘[2]
یہ تھی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی قرار داد اور اساسی بنیاد کہ تحقیق ’’عادلانہ‘‘ ہونا کہ محتاط، لہٰذا محض وتخمین پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوگی اور نہ نری تہمت کسی کو مستوجبِ سزا بناتی ہے حضرت عمر رحمہ اللہ اور عطاء سے یہی مروی ہے۔[3]
۳۔ مثلہ بنانے کی ممانعت کا بیان
رب تعالیٰ نے حج اور عمرہ میں سر منڈانے کو سنت قرار دیا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی مونڈنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے اس کے خلاف کرتے ہوئے بطور سزا کے دوسروں کے سر اور داڑھیوں کو مونڈنا شروع کر دیا۔ آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور اس کو مثلہ کا نام دیا۔[4]چنانچہ آپ نے ایک عامل کو خط لکھا کہ ’’مثلہ بنانے سے بچو خبردار سزا دینے کے لیے کسی کا سر اور داڑھی نہ مونڈنا۔‘‘[5] یہی مذہب ائمہ اربعہ کا بھی ہے کہ تعزیر میں کسی کی داڑھی مونڈنا ہرگز بھی جائز نہیں۔ جبکہ سر مونڈنا امام مالک اور
[1] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۲۷۱۔
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۵۵۔
[3] مصنف عبدالرزاق: ۱۰/ ۲۱۷۔۲۱۹۔
[4] فقہ عمر: ۲/ ۲۱۵۔
[5] الطبقات: ۵/ ۳۸۰۔