کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 415
۵… تعزیرات کا بیان اس باب میں درجِ ذیل عناوین قابل ذکر ہیں: ۱۔ تعزیر کی زیادہ سے زیادہ حد کا بیان جسمانی سزا کی دو قسمیں ہیں، حد اور تعزیر، حد کو خود شارع علیہ السلام نے بیان فرما دیا ہے جس میں کی بیشی کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ اور اس کی مقدار خود شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہے۔ جبکہ تعزیر ان امور میں یا ایسی جنایت میں جاری کی جاتی ہے جن کی حد شرع میں بیان نہیں کی گئی۔ یہ امر حاکم کی صواب دید کے سپرد ہوتا ہے وہ صورت حال دیکھ کر اس سزا کی مقدار متعین کر سکتا ہے۔ البتہ آپ نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد بھی بیان کی ہے جس سے تجاوز کی اجازت نہیں۔ اور اس بابت دو اقوال ہیں۔[1] پہلا قول یہ ہے کہ تعزیر تیس دروں سے زیادہ نہ ہوگی، چنانچہ محمد بن قیس سے مروی ہے کہ ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے والی مصر کو خط لکھا کہ تعزیر تیس دروں سے زیادہ نہ ہو الا یہ کہ معاملہ شرعی حد کا ہو۔‘‘[2] دوسرا قول یہ ہے کہ تعزیر کی کم سے کم حد سے متجاوز نہ ہو۔ چنانچہ اس قول کی بنیاد پر آزاد کی تعزیر انتالیس دروں سے متجاوز نہ ہوگی اور غلام کی تعزیر انیس دروں سے زیادہ نہ ہوگی۔ کیونکہ آزاد کے لیے کم از کم حد چالیس اور غلام کے لیے بیس درے ہیں۔[3] چنانچہ آپ نے اپنے عاملوں کو لکھ بھیجا : ’’لوگوں کو ان کے جرائم کے بقدر سزا دو چاہے کسی کی سزا محض ایک کوڑا بنتی ہو اور خبردار کسی کو حد کی سزا نہ دینا۔‘‘[4] (ہاں معاملہ ہی حد کا ہو تو اور بات ہے)۔ ۲۔ محض گمان پر کسی کو گرفتار کرنے اور تہمت پر سزا دینے کی ممانعت کا بیان سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ محض گمان پر کسی کو گرفتار کرنے یا محض تہمت لگا دینے سے کسی کو سزا دینے کے قائل نہ تھے۔ عدل وانصاف کی بابت یہ آپ کا بنیادی اصول تھا اور آپ عادلانہ تحقیق کو احتیاطی تحقیق پر ترجیح دیتے تھے۔ دراصل آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں کسی بے گناہ پر ظلم نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کی خیانتیں لے کر رب کے حضور پیش ہونے کو اس بات پر ترجیح دی کہ ان کے خو ن ناحق سے ہاتھ رنگ کے رب کے حضور پیش ہوں۔[5] ابراہیم بن ہشام بن یحییٰ غسانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے میرے دادا سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے موصل کا والی بنایا اور میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ تو بڑے چور اور نقب زن ہیں، میں نے یہ صورت حال آپ کو لکھ بھیجی اور پوچھا کہ کیا کروں؟
[1] فقہ عمر: ۲/ ۱۸۸۔ [2] الطبقات الکبریٰ: ۵/ ۳۶۵۔ [3] فقہ عمر: ۲/ ۱۸۹۔ [4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ۱۷۷۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۲۱۲۔