کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 414
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک ایسے شخص سے پہلے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔ اور دوبارہ اسلام لے آنے کو دعوت دی جائے گی۔ پس اگر تو وہ تین دن کے اندر اندر توبہ کر کے مسلمان ہوگیا تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی وگرنہ چوتھے دن اس کی گردن مار دی جائے گی۔[1] ۱۷۔ مرتد سے توبہ کروانے کے طریقہ کا بیان عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا عامل تھا۔ میں نے آپ کو یہ ماجرا لکھ بھیجا کہ ایک یہودی مسلمان ہو کر پھر یہودی بن بیٹھا ہے تو آپ نے مجھے یہ خط لکھا کہ ’’پہلے اسے اسلام کی دعوت دو، اگر تو وہ اسلام قبول کرتا تو اس کا رستہ چھوڑ دو اور اگر وہ نہیں مانتا تو اس کو لکڑی کے ایک تختے پر لٹا دو اور اسلام کی دعوت دو۔ نہ مانے تو رسیوں سے باندھ کر اس کے دل پر خنجر رکھ کر اسلام کی دعوت دو، مان جائے تو جانے دو اور نہ مانے تو اسے قتل کر دو۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ’’میں نے ایسا ہی کیا، اور جب میں نے خنجر اس کے دل پر رکھا تو وہ مسلمان ہوگیا، جس پر میں نے اسے جانے دیا۔‘‘[2] دکتور محمد شقیر لکھتے ہیں : ’’مرتد سے توبہ کروانے کی یہ تفصیل میں نے سوائے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس خط کے اور کسی جگہ لکھی نہیں دیکھی ائمہ اربعہ نے تو فقط یہ لکھا ہے : ’’مرتد سے توبہ کرنے کو کہا جائے، نہ مانے تو قتل کر دو۔‘‘[3] ۱۸۔ مرتدہ عورت کی سزا کا بیان آپ کے نزدیک مرتدہ عورت کو بھی توبہ کرنے کو کہا جائے گا، اگر تو وہ توبہ کرتی ہے تو فبہا وگرنہ اس کو غلام بنا کر غیر مسلمانوں کے ہاتھوں بیچ دیا جائے گا۔[4] یہی رائے قتادہ کی بھی ہے کہ نہ ماننے کی صورت میں اس کو قیدی بنا کر بیچ دیا جائے گا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین کی عورتوں کے ساتھ یہی کیا تھا۔[5]حسن بصری سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’جب عورتیں مرتد ہو جائیں تو انہیں قتل مت کرو ہاں انہیں مسلمان ہو جانے کی دعوت دو، اگر نہ مانیں تو قید میں ڈال دو، انہیں مارو نہیں البتہ مسلمانوں کی باندیاں بنا دو۔‘‘[6]
[1] الطبقات الکبریٰ: ۵/ ۳۵۱۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۲/ ۲۷۴۔ [3] روضۃ الطالبین: ۱۰/ ۷۵۔ [4] فقہ عمر: ۲/ ۱۸۱۔ [5] مصنف عبدالرزاق: ۱۰/ ۱۷۶۔ [6] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۰/ ۱۴۰۔