کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 412
۹۔ چوری کا سامان لے کر نکلنے سے پہلے پکڑے جانے والے چور کا حکم اس بابت آپ کی رائے یہ تھی کہ اگر تو چور نکل بھاگنے سے پہلے پکڑا گیا ہے تو اس پر حد سرقہ (یعنی قطع ید) کی سزا نہ آئے گی۔[1] ۱۰۔ کفن چور بھی چور ہی ہے، جو قطع ید کی سزا کا مستحق ہے بعض لوگ ایسے شرمناک افعال کرتے ہیں جن کو سن کر دل گھٹ کے رہ جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض نامرادوں کے گھناؤنے کرتوتوں سے قبروں میں پڑے مردے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ ایک چور ایسا بھی ہے جو قبریں کھود کر مردوں کے کفن لے اڑتا ہے۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک کفن چور بھی چور ہی تھا جو قطع ید کی سزا کا مستحق تھا۔ دوسرے آپ کے نزدیک مردوں کی چوری کرنے والا زندوں کی چوری کرنے والے کی طرح تھا۔[2] چنانچہ معمر بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کفن چور کے ہاتھ کاٹے تھے۔[3] ۱۱۔ دوسری بار شراب پینے والے کی سزا کا بیان عبادہ بن نسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص پر شراب کی حد جاری کی۔ چنانچہ آپ نے اس کے کپڑے اتار کر اسے اسی درّے مارے۔ جن میں سے بعض کی ضرب نے اس کی جلد کو پھاڑ بھی دیا۔ سزا دینے کے بعد آپ نے اس سے فرمایا: ’’اگر تم نے دوبارہ شراب پی تو میں تمہیں درے مارنے کے ساتھ ساتھ قید میں بھی ڈال دوں گا اور جب تک تو سدھرے گا نہیں آزاد نہیں کروں گا۔‘‘ اس پر وہ شراب نوش بولا: ’’اے امیرالمومنین! میں رب کے حضور توبہ کرتا ہوں کہ دوبارہ کبھی شراب نہ پیوں گا۔‘‘ تب آپ نے اس کا رستہ چھوڑ دیا۔[4] ۱۲۔ شراب پلانے والے کی سزا کا بیان ہونا تو یہ چاہیے کہ جو شراب مہیا کرتا ہے یا شرابی کو پینے کے لیے پیش کرتا ہے اس کی سزا بھی شراب نوش سے کسی طرح کم نہیں ہونی چاہیے کیونکہ شرابی تک شراب پہنچانے کا سبب یہی بنا ہے۔ اسی لیے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شراب پلانے اور پہنچانے والے کو شراب پینے والوں کے ساتھ ایک ہی سزا دی۔[5] چنانچہ ابن تمیمی سے روایت ہے :’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے چند لوگوں کو شراب کی محفل قائم کرتے پکڑ لیا۔ وہاں شراب پلانے والا بھی موجود تھا، تو آپ نے شرابیوں کے ساتھ ساتھ اس کو بھی سزا دی۔‘‘[6]
[1] فقہ عمر: ۲/ ۱۴۶۔ [2] فقہ عمر: ۲/ ۱۴۷۔ [3] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۰/ ۳۴۔ [4] الطبقات الکبری: ۵/ ۳۶۵۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۱۵۹۔ [6] المصنف لعبد الرزاق: ۹/ ۲۳۰۔