کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 411
۷۔ کسی مسلمان کی نصرانی بیوی پر تہمت لگانے کی سزا اگر اس معاملہ کا جائزہ اس پہلو سے لیا جائے کہ ’’نصرانی بیوی‘‘ پر لگنے والی تہمت کا معنی اثر اس کے مسلمان خاوند اور مسلمان بیٹے تک بھی متعدی ہوتا ہے تو اس کا حکم کیا ہوگا؟ چنانچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت ہے ایسی عورت پر تہمت لگانے کو ’’حد‘‘ سے کم مقدار میں درے مارے جائیں گے۔[1] ابواسحاق شیبانی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک ایسی نصرانی عورت پر تہمت لگائی جس کا ایک مسلمان بیٹا بھی تھا، تو آپ نے تہمت لگانے والے کو تیس سے کچھ اوپر کوڑے لگائے۔[2] یہی رائے زہری کی بھی ہے جبکہ قتادہ ایسے آدمی پر ’’حد‘‘ کی مقدار جتنے درے جاری کرتے ہیں۔[3] ائمہ مذاہب اربعہ کا اس مسئلہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسے آدمی پر حد جاری نہ ہوگی۔ مالکیہ کا یہ قول ہے کہ اس عورت کی مسلمان اولاد کی بنا پر تہمت لگانے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے گی۔[4] ۸۔ زنا بالجبر کی تہمت کا بیان حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے آپ کے پاس آکر دوسرے مرد پر زنا بالجبر کا الزام لگایا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ ’’کیا تیری کسی نے آواز سنی تھی؟ یا کسی نے تم پر یہ ظلم ہوتے دیکھا؟ وہ عورت بولی نہیں تو آپ نے اس پر مرد لگنے والی تہمت کے بدلے میں عورت پر حد قذف کو جاری کیا۔[5] یاد رہے کہ یہ مسئلہ زنا کی سزا کو متضمن نہیں۔ یہ مسئلہ قذف کے ساتھ خاص ہے، اب جو عورت دوسرے پر زنا بالجبر کا الزام لگا رہی ہے دراصل وہ عورت اس مرد پر اپنے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگا رہی ہے۔ اب اگر تو وہ اس بات کے گواہ پیش کر دیتی ہے تو ٹھیک کہ یہ گواہ اس پر سے حد قذف کو دور کر دیں گے۔ (ناکہ یہ بات ہے کہ یہ گواہ اس مرد پر زنا کو ثابت کر دیں گے جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اس مسئلہ کا زنا کی سزا سے کوئی تعلق نہیں… مترجم) وگرنہ اس پر حد قذف آئے گی، اب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک اگر تو کسی نے اس عورت کا شور شرابا سنا تھا یا کسی نے دیکھا تھا تو یہ امر اس پر سے حد قذف کو ساقط کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اگر وہ گواہ پیش نہ کرے تو اس پر حد قذف آئے گی۔ یہی رائے قتادہ، زہری، ربیعہ اور یحییٰ بن سعید انصاری کی بھی ہے۔[6]
[1] فقہ عمر: ۲/ ۱۳۶۔ [2] مصنف عبدالرزاق: ۷/ ۱۳۰۔ [3] مصنف عبدالرزاق: ۷/ ۱۲۹۔ ۱۳۰۔ [4] المغنی: ۸/ ۲۶۱۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۱۴۰۔ [6] المحلی: ۱۱/ ۲۹۱۔ ۲۹۲۔