کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 410
اگر مقذوف کا فر ہو تو قاذف پر حد نہیں آتی۔ کیونکہ مقذوف کا کفر اس پر لگنے والی زنا کی تہمت سے بھی زیادہ گمبھیر اور بڑا ہے۔ لہٰذا جب تک اس کافر مقذوف میں زنا کی تہمت سے بھی بڑا گناہ یعنی کفر موجود ہے، اس کو زنا کی تہمت سے جو اس سے چھوٹے درجے کا گناہ ہے، بری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔[1] چنانچہ طارق بن عبدالرحمن اور مطرف بن ظریف سے روایت ہے، وہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم شعبی کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں دو آدمی جن میں سے ایک مسلمان اور دوسرا کافر نصرانی تھا اپنا جھگڑا لے کر ان کے پاس آئے۔ دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی، آپ نے مسلم کے لیے اس نصرانی کو اسی درے لگوائے اور بعد میں نصرانی سے کہا کہ چونکہ تم میں اس تہمت سے بھی بڑا جرم ہمہ وقت موجود ہے اس لیے تمہاری وجہ سے اس مسلمان کو سزا نہ دی جائے گی اور اس مسلمان کو چھوڑ دیا‘‘ یہی فیصلہ عبدالحمید بن زید کے سامنے بھی پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ ماجرا اور اس کی بابت شعبی کا فیصلہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھ بھیجا آپ نے جواب میں شعبی رحمہ اللہ کے فعل کو درست اور قابل تحسین قرار دیا۔[2]
غرض سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک کافر پر تہمت لگانے والے پر حد نہیں آتی کیونکہ کفر کے بعد کفر سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔ دوسرے اس لیے بھی کہ کافر میں کفر کا گناہ ہر وقت موجود رہتا ہے جو لگائی گئی تہمت سے بھی بڑا گناہ ہے، لہٰذا اگر بجائے تہمت کے اس میں واقعی زنا کا گناہ پایا بھی جائے تب بھی وہ کفر سے ادنیٰ درجے کا گناہ ہوگا۔ لہٰذا کافر پر تہمت لگانے والے پر کوئی حد نہ آئے گی۔[3]
۶۔ بیٹے پر تہمت لگانے والے پر سے حد ساقط نہیں
اگر کسی نے خود اپنے بیٹے پر تہمت لگا دی، اب آیا اس پر حد قائم کی جائے گی یا نہیں؟ اور کیا ایک باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بے گناہ بیٹے پر بدکاری کی تہمت لگا دے؟ اور اگر اس پر حد آتی ہے تو کیا بیٹے کے معاف کر دینے سے اس پر سے یہ حد ساقط ہو جائے گی؟ ان سب سوالات کے تناظر میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ بیٹے پر تہمت لگانے والے پر حد جاری کی جائے گی۔ البتہ اگر بیٹا معاف کر دے تو وہ حد ساقط ہو جائے گی۔[4] چنانچہ ابن جریج سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھے والی ایلہ ’’زریق‘‘ نے بیان کیا کہ ’’انہوں نے ایک شخص کے بارے میں جس نے اپنے بیٹے پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا تو انہوں نے جواب بھیجا :’’باپ پر حد قائم کی جائے الا یہ کہ بیٹا معاف کر دے۔‘‘[5]
[1] فقہ عمر: ۲/ ۱۳۰۔
[2] مصنف عبدالرزاق: ۶/ ۶۴۔ ۶۵۔
[3] فقہ عمر: ۲/ ۱۳۰۔
[4] فقہ عمر: ۲/ ۱۳۳۔
[5] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹/ ۵۰۴۔