کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 41
’’اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں ، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔‘‘
رب تعالیٰ نے اس بات کی خبردی ہے کہ وہ پتوں اور جمادات تک کی ہر ہر حرکت سے باخبر ہے اسی طرح چلنے پھرنے والے سب جانوروں کی حرکات بھی جانتا ہے۔
اور فرمایا:
{وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍیَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ }
(الانعام:۳۸)
’’اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
{وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا} (ہود:۶)
’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
جب رب تعالیٰ کے علم کی عظمت ووسعت اور احاطہ کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر چیز کی تمام حرکات سے باخبر ہے تو بھلا وہ مکلفین اور عبادت پر مامور بندوں کی سب حرکات سے کیونکر واقف نہ ہوگا۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
{وَتَوَکَّلْ عَلٰی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ o الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْن} (الشعراء: ۲۱۷ تا ۲۱۹)
’’اور اس سب پر غالب، نہایت رحم والے پر بھروسا کر۔جو تجھے دیکھتا ہے، جب تو کھڑا ہوتا ہے۔اور سجدہ کرنے والوں میں تیرے پھرنے کو بھی۔‘‘
اس لیے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم یہ سب کام کر رہے ہوتے ہو ہم تمہار امشاہد ہ کر رہے ہوتے ہیں ، اور تمہیں دیکھتے اور سنتے ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر)
٭ عبدالاعلی بن ابو عبداللہ العنزی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو دیکھا کہ آپ میلے کپڑوں میں ہی جمعہ ادا کرنے چلے جارہے تھے اور ایک حبشی غلام پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔ جب آپ لوگوں کے پاس پہنچے تو وہ حبشی لوٹ گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب دو آدمیوں کے پاس پہنچتے تو فرماتے، اللہ تم دونوں پر رحم فرمائے (یوں بیٹھتے ہیں ) یہاں تک کہ آپ منبر