کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 409
۴… حدود کا بیان اس مضمون کو ہم درج ذیل عناوین کی روشنی میں بیان کرتے ہیں: ۱۔ اقامت حدود کی اہمیت بلا شبہ حدود کے قیام میں مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہے، حدود کا قیام معاشرے میں امن کا ضامن ہے، اس لیے آپ نے حدود کے نفاذ وقیام میں زبردست سختی اور تاکید سے کام لیا۔ حتیٰ کہ حدود کے قیام کو قیامِ زکوٰۃ وصلوۃ جتنی اہمیت دی۔[1] چنانچہ آپ نے اپنے والیوں کو لکھ بھیجا کہ میرے نزدیک حدود کے قیام کی اہمیت نماز اور زکوٰۃ کے قیام جتنی ہے۔[2] ۲۔ حدود کا معاملہ جب حاکم تک پہنچ جائے تو اب اس میں رجوع نہ کیا جائے آپ کے نزدیک حدود کا معاملہ جب امام یا قاضی تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی، بلکہ جو حد ثابت ہو جائے اس کی تنفیذ واجب ہوتی ہے۔[3] ۳۔ ایک آدمی پر ایک سے زیادہ حدود جمع ہو جانے کا بیان بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حد قائم کرنے سے پہلے ایک شخص متعدد جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مثلاً اس نے چوری بھی کی، زنا بھی کیا، پھر قتل بھی کر ڈالا، اب کیا اس کو قتل کر دینا ان دوسری حدود کی طرف سے کفایت کر جائے گا، جن کا وہ مرتکب ہوا ہے؟ یا پہلے اس پر حد قائم کی جائے گی اور پھر قصاص میں قتل کیا جائے گا؟ اس باب میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی روایات بتلاتی ہیں کہ ایسے شخص پر پہلے حد قائم کی جائے گی، پھر اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔[4] ۴۔ پھانسی دینے اور قتل کرنے کی سزا خلیفہ کی طرف مراجعت کرنے کے بعد دی جائے گی آپ کے نزدیک بلا دو امصار کے والیوں کے ذمہ تھا کہ وہ قتل اور پھانسی وغیرہ کے مقدمات میں پہلے خلیفہ کی طرف مراجعت کریں اور جب تک خلیفہ کی رائے کی موافقت حاصل نہ کر لی جائے نہ تو کسی کو قتل کیا جائے اور نہ اسے سولی چڑھایا جائے۔[5] ۵۔ مقذوف کے لیے حد جاری کرنے کی شرط یہ ہے کہ مقذوف مسلمان ہو (مقذوف اس شخص کو کہتے ہیں، جس پر بدکاری وغیرہ کی تہمت لگائی جائے۔ اور اگر وہ تہمت ثابت نہ ہو تو قاذف یعنی تہمت لگانے والے پر حد آتی ہے… مترجم) سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ
[1] فقہ عمر: ۲/ ۱۱۱۔ [2] الطبقات الکبریٰ: ۵/ ۳۷۸۔ [3] فقہ عمر: ۲/ ۱۱۳۔ [4] فقہ عمر: ۲/ ۱۱۷۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۱۲۰۔