کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 407
صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس امر کی سنگینی دیکھتے ہوئے آپ نے اس کی پوری دیت مقرر کی اور ایک روایت ثلث دیت کی بھی ہے۔[1] ان دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یوں پیدا کی جا سکتی ہے کہ اگر تو عورت بول و براز کو روکنے اور بچہ جننے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے تو اس میں ثلث دیت آئے گی اور اگر ایسا نہیں تو پوری دیت آئے گی۔[2] ۶۔ ناک کی دیت انسان کے ناک کے ساتھ متعدد منافع وابستہ ہیں، یہ ذریعہ تنفس بھی ہے اور اس کے ذریعے مختلف بوؤں کو سونگھ کر ان کے درمیان اچھی اور ناگوار بوؤں کا امتیاز بھی قائم کیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناک چہرے کی خوبصورتی اور جمال کا مظہر اور حسن ورعنائی کا مدار ہے اور اس کے کاٹنے سے چہرہ بدنما اور مکروہ ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب ناک کاٹ دینے کو کسی کی بدترین اہانت تصور کرتے تھے۔ ناک کی انہی مصلحتوں کے پیش نظر آپ نے ناک کو جڑ سے کاٹ دینے میں کامل دیت مقرر فرمائی۔ اور اس سے کم میں اسی کے حساب سے دیت مقرر کی۔[3] ۷۔ کان کی دیت چونکہ ایک کان سننے کی نصف منفعت ادا کرتا ہے اور انسان میں دو کان ہوتے ہیں، اس لیے اگر کوئی ایک کان کو جڑ سے اکھاڑ دے یا ضرب لگا کر اس کی سماعت ختم کر دے تو آپ نے اس میں نصف دیت مقرر کی، کیونکہ آپ کا یہ کہنا کہ ’’کان میں نصف دیت ہے، یہ دونوں باتوں کو شامل ہے، سماعت کے ختم ہونے کو بھی اور کان کو جڑ سے کاٹ دینے کو بھی۔‘‘[4] ۸۔ پاؤں میں دیت آدمی کے دو قدم پورے ہوں تو چل سکتا ہے جبکہ ایک پاؤں سے آدمی معذور اور لنگڑا ہوجاتا ہے اور صحیح طور پر چل نہیں پاتا۔ دوسرے انسان کے ہمیشہ دو پاؤں ہوتے ہیں، اس لیے آپ نے ایک پاؤں کاٹ دینے میں نصف دیت مقرر کی۔[5] ۹۔ بھنوؤں کے درمیان کی دیت یہ وہ فقہی جزئیہ ہے جس سے آپ سے قبل کسی فقیہ نے تعرض نہیں کیا۔ اور آپ کی اس کے بارے میں یہ رائے تھی کہ اس میں ہڈی توڑنے والی دیت آئے گی جب کہ چوٹ دونوں بھنوؤں کے بیچ میں لگائی گئی ہو
[1] فقہ عمر: ۲/ ۷۱۔ [2] مصنف عبدالرزاق: ۹/ ۳۷۷۔ [3] فقہ عمر: ۲/ ۷۶۔ [4] فقہ عمر: ۲/ ۸۰۔ [5] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹/ ۲۰۹۔