کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 406
آپ نے اپنے ایک مکتوب میں بھیڑ میں مارے جانے والے دو آدمیوں کے بارے میں لکھا کہ ’’ان کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے کیونکہ وہ دونوں یا تو کسی کے پیروں تلے آکر کچلے گئے یا کسی کے ہاتھ کے دھکے سے مارے گئے ہیں۔‘‘[1] ۳… دیتوں کا بیان اس مضمون کو درج ذیل عناوین کے تحت بیان کیا جاتا ہے: ۱۔ دیت کی مقدار آپ نے فوجوں کے افسران کو لکھ بھیجا کہ ’’دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں دیت سو اونٹ تھی۔‘‘[2] ۲۔ زبان کی دیت سلیمان بن موسیٰ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں : ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے افسران فوج کو لکھ بھیجا کہ اگر کسی کی زبان اس طرح کاٹ دی گئی کہ وہ کلام پر قادر نہ رہ سکا تو پوری دیت آئے گی، اور جو زخم اس سے کم درجے کا ہو تو اس کی دیت اس کے حساب سے ہوگی۔‘‘[3] ۳۔ آواز اور گلے (یعنی سانس کی نالی یعنی جہاں سے آواز نکلتی ہے اس) کی دیت آواز گلے سے نکلتی ہے، بسا اوقات کسی کا گلا ضائع کر دینے سے آواز بھی ختم ہو جاتی ہے اور اسی بنا پر آدمی کلام پر بھی قادر نہیں رہتا۔ تو آپ کی رائے اس بارے میں یہ تھی کہ اگر گلے کو ضرب لگانے سے کسی کی آواز ختم ہوگئی تو اس میں پوری دیت آئے گی۔[4] چنانچہ آپ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’جب سانس کی نالی توڑ دی گئی اور اس سے آواز ختم ہوگئی تواس میں پوری دیت آئے گی۔‘‘[5] ۴۔ عضو تناسل کی دیت مرد کے لیے اس عضو کی بڑی اہمیت ہے، اگر یہ ضائع ہو جائے تو آدمی کی شہوت ختم ہو جاتی ہے اور نسل کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے، آپ کے نزدیک پورا عضو ضائع کر دینے پر پوری دیت واجب ہوتی ہے اور کم درجے کے نقصان پر دیت اس کے حساب سے ہوگی۔[6] ۵۔ عورت کے دونوں رستے ایک کر دینے کی دیت بسا اوقات خاوند کے صحبت کرنے سے عورت کے دونوں رستے ایک ہو جاتے ہیں، پھر اس کے نتیجہ میں یا تو عورت لذت اور جماع دونوں سے محروم ہو جاتی اور کبھی وہ بول وبراز پر ضبط کرنے اور اولاد جننے کی
[1] المحلی: ۱۰/ ۴۱۸۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹/ ۱۲۸۔ [3] مصنف عبدالرزاق: ۹/ ۳۵۷۔ [4] فقہ عمر: ۲/ ۶۹۔ [5] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹/ ۱۷۰۔ [6] مصنف عبدالرزاق: ۹/ ۳۷۲۔