کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 405
’’جب تک لڑکا بالغ نہیں ہو جاتا قصاص کو ملتوی کیا جائے۔‘‘[1] ۳۔ متعدد اولیائے قصاص میں سے کسی ایک کے معاف کر دینے سے قصاص ساقط ہو جاتا ہے زہری سے روایت ہے کہ ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ ’’جب ایک ولی معاف کر دے تو (قصاص ساقط ہو جاتا ہے اور) دیت واجب ہوتی ہے۔‘‘[2] ۴۔ قاتل سے دیت لے لینے کے بعد بھی اس کو قتل کر دینے کا بیان آپ فرماتے: رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس زیادتی کا ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی یا تو دیت لے سکتا ہے یا قصاص یا پھر حاکم وقت جارح اور مجروح کے درمیان فیصلہ کرے گا، یا پھر (چوتھی صورت یہ ہے کہ) آدمی اپنا حق وصول کرنے کے بعد بھی دوسرے پر زیادتی کرے گا۔ تو جو ایسا کرے گا وہی اعتدا کا مرتکب ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو سزا دینے کا معاملہ حاکم کے سپرد ہوگا۔ اور جو مرتکب اعتدا ہو وارثانِ حق میں سے بھی کسی کو اس کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہاں حاکم کے حکم سے وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اور سلطان اور حاکم چاہے تو اسے معاف کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اس معاملے کے بارے میں رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ} (النسآء: ۵۹) ’’پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹائو۔‘‘ اور جو درمیانہ زخم ہو اس میں حاکم دیت کا حساب دیکھے گا۔[3] ۵۔ بازار میں پائے جانے والے مقتول کا بیان قاضی بصرہ عدی بن ارطاۃ نے آپ کو لکھ بھیجا کہ مجھے قصابوں کے بازار میں ایک مقتول ملا ہے (جس کے قاتل کا علم نہیں اب اس کی دیت کا حکم کیا ہے؟) تو آپ نے یہ جواب لکھ بھیجا: ’’ایسے مقتول کی دیت بیت المال سے دی جائے۔‘‘[4] ۶۔ بھیڑ میں کچل کر مارے جانے والے کا حکم جو آدمی بھیڑ (یا بھگدڑ) میں مارا جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کس کے پیروں تلے آکر کچلا گیا ہے تو کیا اس کا خون رائیگاں ہوگا؟ آپ کی رائے میں ایسے مقتول کی دیت بیت المال سے دی جائے گی۔[5] چنانچہ
[1] مصنف عبدالرزاق: ۱۰/ ۱۱۔ [2] مصنف عبدالرزاق: ۹/ ۳۱۸۔ [3] مصنف عبدالرزاق: ۱۰/ ۱۶۔۱۷۔ [4] مصنف عبدالرزاق: ۹/ ۴۵۹۔ [5] فقہ عمر: ۲/ ۳۶۔