کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 404
جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا، کہنے لگا: ’’اللہ آپ کا بھلا کرے! میرے پاس گواہ ہیں جو ابھی غیر موجود ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اگرچہ ابھی مجھے حق پر تیرا ساتھی نظر آرہا ہے لیکن میں فیصلہ کو ملتوی کرتا ہوں، اب تم جاؤ اور وہ گواہ لے آؤ اگر وہ گواہ سچے ہوئے تو میں سب سے پہلے اپنا یہ فیصلہ ختم کرنے والا ہوں گا۔‘‘[1] ۱۰۔ گم شدہ اونٹ کے نفقہ کا بیان شعبی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’ایک شخص کا اونٹ گم ہوگیا، چند دن بعد وہ ایک صاحب کے پاس سے مل گیا، اس نے اتنے روز تک اونٹ کو چارہ کھلایا تھا جس سے وہ خوب موٹا ہوگیا ہوا تھا۔ اب دونوں صاحب اپنا مقدمہ لے کر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس آئے۔ یہ آپ کی امارتِ مدینہ کے زمانہ کا قصہ ہے، آپ نے اونٹ والے کے لیے اونٹ کا فیصلہ کیا اور اتنے دن کے چارہ کی رقم بھی اس کے ذمہ کی کہ وہ اتنی رقم اس آدمی کو ادا کرے جس نے اتنے دن تک اونٹ کو باندھے رکھا اور کھلایا پلایا تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائے۔[2] ۱۱۔ لقیط (رستے میں پڑا ملا نومولود بچہ) کی آزادی کا بیان آپ نے اہل مکہ کو خط میں یہ لکھ بھیجا کہ ’’لقیط آزاد ہے۔‘‘[3] ۱۲۔ آدمی کی اپنے بھائی اور باپ کے بارے میں شہادت کا حکم آپ نے یہ حکم لکھ بھیجا کہ ’’اگر آدمی عادل ہو تو اس کی بھائی کے حق میں شہادت قبول کرو۔‘‘[4] ۲… قتل اور قصاص کا بیان اس کی تفصیل درج ذیل عناوین کے تحت بیان کی جاتی ہے: ۱۔ قتلِ عمد میں اولیائے قتل کو معافی دیت اور قصاص تینوں کا اختیار ہے ایک عورت نے ایک مرد کو قتل کر دیا، آپ نے اس کا یہ فیصلہ لکھ بھیجا: ’’اولیائے قتل چاہیں تو معاف کر دیں، چاہیں تو قصاص لے لیں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔ اور اس دیت میں سے مقتول کی بیوی کو ترکہ بھی ملے گا۔‘‘[5] ۲۔ اگر قصاص کا ولی نابالغ ہے تو اس کے بالغ ہونے کا انتظار کیا جائے ایک شخص قتل ہوگیا، اور اپنے پیچھے اپنی نابالغ اولاد چھوڑ گیا، اس کے قتل کی وارث یہی نابالغ اولاد تھی تو آپ نے حکم لکھ بھیجا کہ:
[1] الطبقات الکبریٰ: ۵/ ۳۸۶۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۶/ ۳۱۲۔ [3] مصنف ابن ابی شیبہ: ۶/ ۵۳۱۔ [4] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۸/ ۳۴۲۔ ۳۴۳۔ [5] المحلی: ۱۰/ ۳۶۱۔