کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 403
کھانے کو دل چاہا مگر آپ کے پاس اس وقت سیب خریدنے کو پیسے نہیں تھے، آپ اپنے خچر پر سوار ہو کر نکلے، ہم بھی ساتھ نکلے آپ ایک دیر (راہبوں کی خانقاہ) کے پاس سے گزرے، آپ کے سامنے دیر کے چند نوجوان آئے جنہوں نے طبقوں میں سیب اٹھا رکھے تھے، آپ ایک طبق کے پاس رکے۔ اس میں سے ایک سیب لیا، اس کو سونگھا پھر واپس رکھ دیا، پھر انہیں فرمایا: ’’اپنے راہب خانہ میں داخل ہو جاؤ، مجھے تم لوگوں کے بارے میں اس بات کی خبر نہ پہنچے کہ تم لوگوں نے میرے کسی ساتھی کے پاس کچھ (ہدیہ تحفہ) بھیجا ہے۔‘‘ راوی کہتے ہیں: یہ منظر دیکھ کر میں نے اپنے خچر کو ایڑ لگائی اور آپ کے پاس جا کر کہا: ’’اے امیرالمومنین! آپ کا دل چاہا کہ آپ سیب کھائیں۔ خریدنے کے لیے کچھ نہ ملا تو پھر آپ نے یہ ہدیہ کیوں واپس کر دیا؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، جناب صدیق اکبر اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہدایا قبول نہیں فرمایا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’ان حضرات کے دور میں یہ ہدیہ تھا پر آج یہ ہمارے والیوں کے لیے رشوت ہے۔‘‘[1] ۷۔ نصوص شرعیہ کے خلاف حکموں کو کالعدم قرار دینا آپ نے حجاج بن یوسف کے متعدد خلاف شرع احکام کو رد کر دیا۔[2] اور اس باب میں آپ کتاب وسنت، اجماع یا شوریٰ کی اتباع کرتے تھے اور یہی ائمہ ثلاثہ امام احمد، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا مذہب بھی ہے کہ خلاف شرع حکم (یعنی کتاب وسنت یا اجماع کے خلاف حکم) رد ہوتا ہے۔[3] ۸۔ جو امانت ضائع کر بیٹھے وہ اس بات کے گواہ پیش کرے کہ امانت کے ضیاع میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی وہب بن منبہ نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھا: ’’یمن کے بیت المال سے میں چند دینار گم کر بیٹھا ہوں‘‘ تو آپ نے انہیں یہ جواب لکھا: ’’میں تمہاری امانت و دیانت کو تو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا البتہ تمہاری کوتاہی اور لاپرواہی کو ضرور متہم ٹھہراتا ہوں بے شک میں مسلمانوں کے مال کا ان کی طرف سے خصم ہوں۔ اس لیے میں ان کے لیے تم سے قسم کا مطالبہ کرتا ہوں۔[4] پس تم (اس بات کی) قسم اٹھا لو (کہ تم نے دینار ضائع کرنے میں جان بوجھ کر کوئی کوتاہی نہیں کی)۔ والسلام‘‘[5] ۹۔ اگر گواہ غیر موجود ہوں (پر ہوں ضرور) تو قضاء میں تاخیر کی جائے قریش کی ایک جماعت آپ کے پاس ایک جھگڑالے آئی جس کا آپ نے فیصلہ کر دیا، اس پر وہ شخص
[1] الطبقات الکبری: ۵/ ۳۷۷۔ [2] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۲۷۰۔ [3] فقہ عمر: ۲/ ۴۹۹۔ [4] یعنی تمہارا اس بات کی قسم اٹھانا ضروری ہے کہ تم نے کوتاہی نہیں کی۔ پس اگر تو وہ حلف اٹھا لے تو ضمان نہ آئے گا کیونکہ وہ امین ہے (اور امین پر ضمان نہیں آیا کرتا)۔ [5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ۱۰۴۔ ۱۰۵۔