کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 402
ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کیا خوب اعتراف کیا۔‘‘ پھر دونوں کو اپنے اپنے عمل پر واپس بھیج دیا۔ وہاں پہنچ کر ولید نے ریا کاری سے کام لیتے ہوئے اور آپ کو دھوکا دینے کے لیے اور آپ کی نظروں میں جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لیے آپ کو یہ خط لکھا کہ ’’میں نے اپنے مہینہ بھر کے اخراجات کا اندازہ لگایا ہے تو وہ اتنے اتنے ہیں جبکہ میرا مشاہرہ اس سے زیادہ ہے۔ اگر امیرالمومنین مناسب سمجھیں تو یہ زائد رقم میرے مشاہرے سے منہا کر دیں۔‘‘ یہ خط پڑھ کر آپ نے فرمایا: ’’ولید نے ہماری نظروں میں جھوٹی عزت بنانا چاہی ہے حالانکہ ہمارا گمان اس کے بارے میں اس کے برعکس ہے اور اگر میں محض گمان کی بنا پر کسی کو معزول کرتا تو ولید کو معزول کرتا۔‘‘ پھر آپ نے ولید کے مشاہرے سے اتنی رقم کم کر دینے کا حکم دیا جتنی اس نے خط میں ذکر کی تھی، پھر آپ نے اپنے ولی عہد یزید بن عبدالملک کو یہ خط لکھا: ’’ولید بن ہشام نے میرے بارے میں یہ گمان کر کے مجھے خط لکھا ہے کہ وہ میری نظروں میں اپنی جھوٹی عزت بنا لے گا۔ اگر میں اپنے گمان کے مطابق فیصلے کرتا ہوتا تو وہ میرے لیے کبھی کوئی کام نہ کرتا لیکن میں تو ظاہر کو لیتا ہوں، غیب کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔ اور میں تمہیں اس بات کی قسم دیتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے (جیسے میں مر جاؤں، یا مارا جاؤں یا معزول کر دیا جاؤں) اور زمام خلافت تیرے ہاتھ میں آجائے، پھر یہ ولید تمہیں یہ کہہ کر اپنی تنخواہ بڑھوانا چاہے کہ اس کو میں نے کم کر دیا تھا تو کبھی اس کی بات نہ ماننا کہ وہ اللہ کو دھوکا دینے چلا ہے حالانکہ اللہ اس کو دھوکا دے رہا ہے۔‘‘ پھر وہی ہوا جس کا سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اندیشہ تھا، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد جب یزید بن عبدالملک والی بنا تو ولید بن ہشام نے اسے یہ خط لکھا کہ ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور خلافت میں میرے ساتھ نا انصافی کی اور میری تنخواہ کم کر دی تھی۔‘‘ یہ خط پڑھتے ہی یزید غصہ میں آگیا اور فوراً اس کی معزولی کے احکام جاری کر دیئے۔ اور سیّدنا عمر اور یزید دونوں کے دور خلافت میں جتنی تنخواہیں وہ اب تک لیتا رہا تھا، وہ سب اس پر جرمانہ کے طور پر عاید کر دیں اور اس کے مرنے تک اسے کسی بھی جگہ کا والی نہ بنایا۔‘‘[1] ۶۔ والیوں کو ملنے والے تحائف کا بیان سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ والیوں، قاضیوں اور امراء کو ملنے والے تحفوں کو رشوت سمجھتے تھے، حتی کہ آپ نے خود بسا اوقات شدید احتیاج ہونے کے باوجود بھی تحفے قبول نہ فرمائے اور لوگوں کو اس بات کا باضابطہ حکم دیا کہ وہ اپنے والیوں کو ہرگز بھی تحفے پیش نہ کیا کریں، جیسا کہ آپ نے والیوں کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ عوام اور رعایا سے تحفے قبول نہ کیا کریں۔[2] فرات بن مسلم سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سیب
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص۱۲۹۔ ۱۳۱۔ [2] فقہ عمر: ۲/ ۴۹۵۔