کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 401
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب کسی کو سزا دینا چاہتے تو اسے تین دن قید میں رکھنے کے بعد سزا دیتے تھے کیونکہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ آپ عین غصہ کی حالت میں سزا دیں۔‘‘[1] غصہ کی حالت میں سزا دینے میں اس بات کا احتمال ہے کہ قاضی غصہ اور طیش کے زیر اثر حق سے تجاوز کر جائے اور گنہگار پر ظلم کر بیٹھے۔ اسی بات کے ڈر سے کہ کہیں سزا دینے میں حق سے تجاوز نہ ہو جائے آپ نے قاضیوں کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ سزانافذ کرنے سے پہلے گنہگار کو تین دن تک قید میں رکھیں یہاں تک کہ قاضی کا غصہ فرو ہو جائے۔ پھر قاضی سکونِ قلب کے ساتھ گناہ کے بقدر سزا دے۔[2] ۴۔ قاضی کا معاف کر دینے میں خطا کر جانا یہ اس کے سزا دینے میں زیادتی کرنے سے بہتر ہے ابو عقبہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک ہو سکے شبہات کا سہارا لے کر حدود کو ختم کرو کیونکہ والی کا معاف کر دینے میں خطا کر جانا یہ اس کے سزا دینے میں زیادتی کرنے سے بہرحال بہتر ہے۔‘‘[3] ۵۔ ظن وتخمین پر عمل کرنے سے گریز کیا جائے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قنسرین کے لشکر کا ولید بن ہشام معیطی کو قائد مقرر کیا جبکہ قنسرین کے خراج پر فرات بن مسلم کو مقرر کیا، ان دونوں میں باہم نزاع ہوگیا جس کی شکایت آپ تک پہنچی، آپ نے دونوں کو طلب کر لیا۔ اب ولید تو قنسرین کے سربرآوردہ ’’انباط‘‘[4] کے ساتھ، جب کہ فرات سادگی اور خاموشی سے آیا۔ اگلے دن آپ نے فرات کو اپنے تخت کے پیچھے بٹھلا دیا۔ پھر ولید اور انباط اندر داخل ہوئے۔ آپ نے انباط سے پوچھا، ’’جب تمہارا امیر (فرات) مجھے ملنے چلا تھا تو تم لوگوں نے اس کا زادِ راہ اور سامانِ سفر کیا کیا تھا‘‘؟ وہ بولے: ’’تو کیا وہ آئے ہوئے ہیں اے امیرالمومنین! آپ نے فرمایا: ’’تو تمہیں ان کے بارے میں کچھ علم نہیں؟ وہ بولے: ’’نہیں اللہ کی قسم! (نہیں) اے امیرالمومنین!‘‘ تب آپ نے ولید کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’اے ولید! ایک آدمی جو قنسرین اور وہاں کی سر زمین کا بادشاہ ہے، وہ اپنی حکومت وسلطنت میں سفر کرتا ہوا مجھ تک آپہنچتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی، وہ اپنے سارے سفر کے دوران کسی کو ڈراتا دھمکاتا نہیں۔ بے شک یہ شخص عاجز اور پاکدامن ہے۔‘‘ ولید بولا: ’’بالکل! اللہ کی قسم! اے امیرالمومنین! بے شک وہ پاکدامن ہے اور میں نے اس پر ظلم کیا ہے۔ اور میں رب سے توبہ واستغفار کرتا
[1] تاریخ الخلفاء للسیوطی: ۲۳۶۔ [2] فقہ عمر: ۲/ ۴۹۰۔ [3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۱۲۳۔ [4] انباط: سامی قوم جو جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں آباد تھی جن کے دارالحکومت کا نام سلع تھا، جسے اب بتراء کہتے ہیں۔ انباط کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو بھی کہتے ہیں، بعد میں یہ لفظ غیر عرب مخلوط لوگوں کے لیے بولا جانے لگا۔ القاموس الوحید: ۱۶۰۳۔ (مترجم)