کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 400
(امیرالمومنین) کی طرف بھیج دے تاکہ اگر تو وہ خود اس مسئلہ کے بارے میں کچھ جانتا ہے تو خود اس کا فیصلہ کر دے وگرنہ وہ مسئلہ اہل علم کے پاس بھیج دے۔[1]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دینی اور دنیاوی امور میں غور وفکر کے لیے علماء و فقہاء اور اصحاب دانش وبینش کی ایک مجلس مشاورت قائم کر رکھی تھی۔ جن میں گفتگو کے طویل سلسلے قائم رہتے۔ آپ رات کے آرام کو قربان کر کے حقائق تک پہنچنے کے لیے گہرا غور و فکر کرتے، آپ کو اس حقیقت کا بھر پور ادراک تھا کہ افکار ونظریات کے ملنے سے زبردست ایجابی فکری نتائج حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ جب رجاء بن حیوہ نے عرض کیا کہ ’’امیرالمومنین! دن بھر تو آپ کاروبار خلافت میں مشغول رہتے ہیں پھر رات کو بجائے آرام کرنے کے ہم لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا: اے رجاء! ارباب علم ودانش سے ملاقات عقلوں کی بار آوری کا سبب ہے اور مشورہ اور بحث وتحقیق یہ رحمت کا دروازہ اور برکت کی کنجی ہے۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے رائے ٹھوکر نہیں کھاتی اور ان کے ہوتے ہوئے حزم واحتیاط میں ثبات واستقلال پیدا ہوتا ہے۔[2] پس میں نے دیکھا کہ لوگوں کے ساتھ ملنے میں عقلوں کی بار آوری (اور نشوونما) ہے۔[3]
۳۔ نادانوں کے ساتھ نرمی کرنے اور طیش میں سزا سنانے کی ممانعت کا بیان
آپ نے ایک خط میں لکھا: ’’اللہ کے بندے امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے فوجوں کے جرنیلوں کے نام! امابعد! جب تیرے سامنے مقدمہ کا ایک ایسا فریق حاضر ہو جو جاہل اور بے وقوف ہو اور اللہ نے تمہیں اس کا والی بنایا اور تمہیں اس کی آزمائش میں مبتلا کیا اور تم دیکھو کہ وہ بے احتیاط اور بدپرہیز ہے اور اس کی سیرت بھی حق پرور نہیں۔ تو جہاں تک ہو سکے اس کی اصلاح و درستی کرو اور اس کو سمجھاؤ اور اس کے ساتھ نرمی کرو اور اس کو تعلیم دو، پس اگر تو وہ راہِ راست پر آجائے اور سمجھ اور سدھر جائے تو رب کا اس پر فضل واحسان سمجھو اور اگر وہ جانتا اور سمجھتا نہیں تو یہ تیری اس کے خلاف حجت ہے اور اگر تم دیکھو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے جس میں اس کو سزا دینا حلال ہو جاتا ہے تو اسے طیش نفس کے وقت سزا مت دو، البتہ اسے اس وقت سزا دو جب تمہاری طبیعت معتدل ہو اور گناہ کے بقدر سزا چاہے جتنی بھی بنتی ہو وہی دو، اور اگر اس کی سزا صرف ایک کوڑا بنتی ہو تو وہی سزا دو۔ اور اگر تم دیکھو کہ اس کی سزا قتل بنتی ہے تو اسے زنداں میں ڈال دو، اور کسی کو موجودگی تمہیں سزا دینے میں عجلت سے کام لینے پر آمادہ نہ کرے۔‘‘[4]
[1] فقہ عمر: ۲/ ۴۸۸۔
[2] ملامح الانقلاب الاسلامی: ص ۱۸۶۔
[3] ملامح الانقلاب الاسلامی: ص ۱۸۶۔
[4] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۶۸۔۶۹۔