کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 40
کریں گے کہ انہوں نے کیوں اللہ کی نافرمانی کی اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی تعلیمات پر کیوں نہ ایمان لائے جس کی پاداش میں آج اس عذاب کے مستحق ٹھہرے۔[1]
٭ ابومو دود سے روایت، وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک دن سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ آیت تلاوت کی:
{وَ مَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا} (یونس: ۶۱)
’’اور تو نہ کسی حال میں ہوتا ہے اور نہ اس کی طرف سے (آنے والے) قرآن میں سے کچھ پڑھتا ہے اور نہ تم کوئی عمل کرتے ہو، مگر ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں ۔‘‘
تو اس قدر بلند آواز کے ساتھ روئے کہ آپ کی آہ وبکا اور گریہ کی آواز گھروالوں نے بھی سن لی۔ آپ کی اہلیہ فاطمہ دوڑی آئیں ۔ آپ کو روتے دیکھ کر وہ بھی روپڑیں ۔ جس پر باقی گھر والے بھی اشکبار ہوگئے۔ اتنے میں آپ کے برخوردار عبدالملک گھر آپہنچے۔ ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر پوچھنے لگے: اباجان! کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے کہا:
’’اے بیٹے! خیر کی بات ہی ہے (کوئی پریشانی کی بات نہیں ) تیرا باپ چاہتا ہے کہ نہ اسے دنیا سے کوئی آشنائی ہو اور نہ دنیا کو اس سے کوئی شناسائی ہو۔ اے بیٹے، اللہ کی قسم ! مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میں ہلاک نہ ہوجائوں ، اے بیٹے، اللہ کی قسم ! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں دوزخ والوں میں سے نہ ہوں ۔‘‘[2]
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی امت کے سب احوال اور ساری مخلوقات کے جملہ احوال کو ہر لحظہ، ہر آن اور ہر گھڑی جانتا ہے،اور یہ کہ رب تعالیٰ کے علم وبصر سے ذرّہ برا بر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ زمین و آسمان میں کسی بھی جگہ ہو۔ غرض ہر چھوٹی بڑی چیز کو رب تعالیٰ نے ایک روشن کتاب میں لکھ رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ} (الانعام: ۵۹)
[1] دموع القراء،ص: ۱۰۷ از محمد شؤمان-
[2] الرقۃ والبکاء،رقم: ۹۱ از ابن ابی الدنیا